• KHI: Maghrib 5:49pm Isha 7:10pm
  • LHR: Maghrib 5:04pm Isha 6:31pm
  • ISB: Maghrib 5:04pm Isha 6:33pm
  • KHI: Maghrib 5:49pm Isha 7:10pm
  • LHR: Maghrib 5:04pm Isha 6:31pm
  • ISB: Maghrib 5:04pm Isha 6:33pm

فیض آباد دھرنے کے دوران میڈیا پر شدید دباؤ تھا، سابق چیئرمین پیمرا کا سپریم کورٹ میں جواب جمع

شائع November 1, 2023
ابصار عالم نے اس بات پر افسوس کا اظہار کیا کہ ان کے خلاف 20 شہروں میں غداری کے مقدمات درج ہیں — فائل فوٹو: ڈان نیوز
ابصار عالم نے اس بات پر افسوس کا اظہار کیا کہ ان کے خلاف 20 شہروں میں غداری کے مقدمات درج ہیں — فائل فوٹو: ڈان نیوز

سپریم کورٹ میں فیض آباد دھرنا نظر ثانی کیس میں سابق چیئرمین پاکستان الیکٹرونک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی (پیمرا) ابصار عالم نے بیان حلفی جمع کرا دیا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق بیانِ حلفی میں سابق چیئرمین پیمرا ابصار عالم نے دعویٰ کیا ہے کہ ایک خفیہ ایجنسی کے سابق سربراہ اور افسران کی جانب سے میڈیا چینلز پر دباؤ ڈالا جاتا تھا اور ہدایات نہ ماننے کی صورت میں سنگین نتائج بھگتنے پڑتے تھے۔

ابصار عالم نے الزام عائد کیا کہ انہیں آئی ایس آئی کے سابق ڈائریکٹر جنرل فیض حمید اور ان کے ماتحتوں کی کالز موصول ہوئی تھیں، جنہوں نے انہیں سینئر صحافی نجم سیٹھی کے خلاف کارروائی کرنے اور سابق سفیر حسین حقانی کا ٹی وی چینلز سے مکمل بلیک آؤٹ کرنے کا کہا تھا، تاہم ان مطالبات پر کبھی توجہ نہیں دی گئی۔

خیال رہے کہ سپریم کورٹ میں 2017 کے فیض آباد دھرنے کے خلاف نظرثانی کی درخواستوں کی سماعت آج سے دوبارہ شروع ہو رہی ہے۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ فیض آباد دھرنا کیس میں 6 فروری 2019 کے فیصلے کے خلاف نظرثانی کی 9 درخواستوں پر آج سماعت کرے گا۔

گزشتہ سماعت پر سپریم کورٹ نے فیض آباد دھرنے کے حقائق پر کسی کو بھی بیان حلفی کے ساتھ بیان جمع کرانے کی اجازت دی تھی، اس دھرنے کے سبب اسلام آباد اور راولپنڈی میں معمولات زندگی 20 روز تک مفلوج رہے تھے۔

اس کے جواب میں ابصار عالم نے عدالت میں اپنا مختصر بیان جمع کراتے ہوئے الزام عائد کیا کہ ٹی وی چینلز کی پالیسیوں کو جنرل (ر) فیض حمید /یا ان کے ماتحت غیر قانونی طریقوں سے کنٹرول کرتے تھے، اگر وہ چینلز ان کی ہدایات پر عمل کرنے سے انکار کرتے تو نمبر بدل کر انہیں کیبل نیٹ ورکس پر آخری نمبروں پر منتقل کر دیتے، جس سے چینلز کی نشریات اور ناظرین کی اُن چینلز تک رسائی متاثر ہوتی تھی۔

بیان میں انہوں نے بتایا کہ اپریل 2017 میں صورتحال اس قدر خراب ہو گئی تھی کہ انہیں نامعلوم افراد کی جانب سے پیمرا حکام کو دی جانے والی سنگین دھمکیوں پر اُس وقت کے وزیر اعظم نواز شریف، چیف جسٹس ثاقب نثار اور آرمی چیف جنرل قمر باجوہ کی توجہ دلانے کی ضرورت پڑی۔

بیان میں انکشاف کیا گیا کہ مئی اور جون 2017 میں پیمرا نے پیمرا ایکٹ کے سیکشن 33-اے کے تحت تمام ٹی وی چینلز کو ان کے اصل نمبروں پر بحال کیا حتیٰ کہ ڈان نیوز اور جیو نیوز کی اصل نمبروں پر بحالی کو یقینی بنانے کے لیے پولیس کی مدد سے لاہور اور کراچی کا دورہ کیا، انہوں نے دعویٰ کیا کہ ہدایات کی خلاف ورزی کرنے والے کیبل آپریٹرز کو سزا بھی دی گئی۔

ابصار عالم نے بتایا کہ 25 نومبر 2017 کو فیض آباد دھرنے کے دوران وزارت داخلہ کی درخواست پر ایک ٹی وی چینل ’92 نیوز‘ بند کیا گیا تھا، جس کے بعد فیض حمید اور ان کے ماتحت اہلکاروں نے مجھے بطور چیئرمین پیمرا 3 مرتبہ کال کی اور مجھ سے پوچھا جاتا رہا کہ نجی ٹی وی چینل کیوں بند کیا، مجھے کہا گیا کہ تمام چینلز بند کرو یا پھر یہ چینل بحال کرو، تاہم ان کا کوئی بھی غیر قانونی مطالبہ تسلیم نہیں کیا گیا۔

بیان میں کہا گیا کہ 25 نومبر 2017 کو اس وقت کی وزیر اطلاعات مریم اورنگزیب نے ابصار عالم سے رابطہ کیا اور ان سے تمام ٹی وی چینلز کو بند کرنے کا حکم دینے کو کہا جس پر انہیں جواب دیا گیا کہ صورتحال ایسی نہیں ہے کہ اتنی سخت کارروائی کی جائے اور نہ ہی پیمرا کے پاس ایسا کوئی اختیار موجود ہے۔

ابصار عالم کے بیان حلفی کے مطابق پیمرا ایکٹ کے سیکشن 5 کا حوالہ دیتے ہوئے مریم اورنگزیب کو بتایا گیا کہ وفاقی حکومت کی جانب سے صرف ’تحریری پالیسی ہدایت‘ پر ہی عمل کیا جا سکتا ہے، بعد ازاں پیمرا کو وفاقی حکومت کی جانب سے ایک تحریری پالیسی ہدایت موصول ہوئی جس کے نتیجے میں فیض آباد دھرنے کے دوران تمام ٹی وی چینلز بند کر دیے گئے، ایک روز بعد پیمرا کو وفاقی حکومت کی جانب سے بند کیے گئے تمام ٹی وی چینلز کو بحال کرنے کی ہدایت موصول ہوئی۔

ابصار عالم نے الزام عائد کیا کہ پیمرا کے امور میں واضح طور پر مداخلت کی گئی لیکن مسلسل چوکنا رہ کر پیمرا اپنے ملازمین کی زندگیوں کے تحفظ کے لیے غیر قانونی اور دھمکی آمیز اقدامات کا مقابلہ کرنے میں کامیاب رہا اور اس سب کے باوجود اپنے تمام امور محتاط انداز میں انجام دیتا رہا۔

ملازمت سے برطرفی، مقدمات، قتل کی کوشش

سابق چیئرمین پیمرا نے سپریم کورٹ کو آگاہ کیا کہ انفرادی طور پر خدمات انجام دینے والے انٹیلی جنس افسران کے کہنے پر کئی پریشان کن واقعات رونما ہوئے اور ان کی مدت ملازمت کے دوسرے برس ان کی بطور چیئرمین پیمرا تعیناتی کو چیلنج کیا گیا جس پر روزانہ کی بنیاد پر سماعت ہوئی جو کہ دسمبر 2018 میں ان کی برطرفی پر اختتام پذیر ہوئی۔

اسی طرح ایک انٹراکورٹ اپیل جو کہ 5 برس بعد مقرر کی گئی تھی، اسے بھی تکنیکی بنیادوں پر سماعت کا موقع فراہم کیے بغیر خارج کر دیا گیا۔

ابصار عالم نے اس بات پر افسوس کا اظہار کیا کہ ان کے خلاف 20 شہروں میں غداری کے مقدمات درج ہیں جبکہ ان کی برطرفی کے بعد جہلم کے قریب دینہ میں آئین کے آرٹیکل 6 کے تحت غداری، بغاوت اور ریاست مخالف سرگرمیوں کے الزام میں 2 مزید مقدمات درج کیے گئے۔

انہوں نے الزام عائد کیا کہ پیمرا میں دوران ملازمت اور اس کے بعد بھی وہ میڈیا ٹرائلز کا نشانہ بنے، انہیں ’غدار‘ جیسے القابات سے نوازا گیا اور اُن کے خلاف اس سے بھی بدتر حربے آزمائے گئے۔

علاوہ ازیں ایف آئی اے نے اُن کے خلاف سائبر کرائمز ایکٹ کے تحت مقدمات بھی درج کردیے کیونکہ انہوں نے کچھ ٹوئٹس میں کچھ سرکاری ملازمین کے ریاستی امور میں مداخلت پر سوالات اٹھائے تھے۔

بیان حلفی کے مطابق بالآخر اپریل 2021 میں ابصار عالم کو قاتلانہ حملے میں نشانہ بنایا گیا جو کہ ناکام ہو گیا لیکن انہیں کسی ٹی وی چینل پر بطور مہمان آنے یا کسی اخبار میں لکھنے کی اجازت نہیں دی گئی اور انہیں چیئرمین پیمرا کے عہدے سے ہٹائے جانے کے بعد بھی زبردستی بےروزگار رہنے پر مجبور کیا گیا۔

کارٹون

کارٹون : 22 دسمبر 2024
کارٹون : 21 دسمبر 2024