• KHI: Fajr 5:52am Sunrise 7:13am
  • LHR: Fajr 5:32am Sunrise 6:59am
  • ISB: Fajr 5:40am Sunrise 7:09am
  • KHI: Fajr 5:52am Sunrise 7:13am
  • LHR: Fajr 5:32am Sunrise 6:59am
  • ISB: Fajr 5:40am Sunrise 7:09am

حکومت کی ڈیڈ لائن ختم ہوتے ہی ہزاروں افغان تارکین وطن کی واپسی شروع

شائع October 31, 2023
افغانستان کی وزارت پناہ گزین نے کہا کہ وہ واپس آنے والے شہریوں کی رجسٹریشن کر رہے ہیں: فوٹو: اے ایف پی
افغانستان کی وزارت پناہ گزین نے کہا کہ وہ واپس آنے والے شہریوں کی رجسٹریشن کر رہے ہیں: فوٹو: اے ایف پی

ملک میں غیرقانونی تارکین وطن کی واپسی کے لیے نگران حکومت کی طرف سے دی گئی تاریخ ختم ہونے کے قریب آتے ہی بالخصوص افغان تارکین وطن ہزاروں کی تعداد میں وطن واپسی کے لیے سرحد پر موجود ہیں۔

غیرملکی خبر ایجنسیوں ’اے ایف پی‘ اور ’رائٹرز‘ کے مطابق افغانستان کی طالبان حکومت نے کہا ہے کہ 23 ستمبر سے 22 اکتوبر تک 60 ہزار کے قریب افغان شہری وطن واپس پہنچے ہیں۔

خیال رہے کہ اکتوبر کے آغاز سے اب تک تقریباً ایک لاکھ افغان تارکین وطن پہلے ہی ملک چھوڑ چکے ہیں جن میں سے 80 فیصد خیبرپختونخوا میں طورخم بارڈر کے ذریعے روانہ ہوئے ہیں جہاں افغان تارکین وطن کی بڑی تعداد مقیم تھی۔

طالبان کی وزارت پناہ گزین کے ترجمان عبدالمطلب حقانی نے کہا کہ روزانہ کی بنیاد پر تارکین وطن کی واپسی کی تعداد اب تین گنا بڑھ گئی ہے۔

چمن بارڈ پر سامان سے لدی افغان مہاجرین کی گاڑیاں سرحد پار کر رہی ہیں—فوٹو: اے ایف پی
چمن بارڈ پر سامان سے لدی افغان مہاجرین کی گاڑیاں سرحد پار کر رہی ہیں—فوٹو: اے ایف پی

طورخم بارڈر پر موجود ایک سینیئر سرکاری عہدیدار نے بتایا کہ ہزاروں کی تعداد میں افغان پناہ گزین لاری، ٹرکوں اور دیگر گاڑیوں کے انتظار میں بیٹھے ہیں جبکہ اعداد و شمار میں مزید اضافہ جاری ہے۔

انہوں نے کہا کہ صبح سے 10 ہزار افغان پناہ گزین وطن واپسی کے لیے جمع ہوچکے ہیں۔

حکام نے مزید کہا کہ ہزاروں دیگر افغان تارکین وطن چمن بارڈر پر انتظار میں بیٹھے ہیں۔

انہوں نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ اس طریقہ کار میں زیادہ وقت درکار نہیں ہے کیونکہ تارکین وطن کے پاس پاسپورٹ یا ویزے نہیں ہیں اور انہیں امیگریشن سے گزرنے کی ضرورت پیش نہیں آتی، وہ ڈپورٹیشن کے طریقہ سے گزر کر اپنے ملک واپس جا رہے ہیں۔

کراچی کے علاقے سہراب گوٹھ سے ایک بس سروس آپریٹر عزیز اللہ نے بتایا کہ پناہ گزینوں کی واپسی کا بندوبست کرنے کے لیے انہیں اضافی کوششیں کرنی پڑ رہی ہیں۔

اسلام آباد میں پناہ گزینوں کی کیمپ کے احاطے میں مسمار کیے گے گھر کے پاس ایک بچہ کھڑا ہے—فوٹو: اے ایف پی
اسلام آباد میں پناہ گزینوں کی کیمپ کے احاطے میں مسمار کیے گے گھر کے پاس ایک بچہ کھڑا ہے—فوٹو: اے ایف پی

عزیز اللہ نے کہا کہ اس سے قبل ہم ہفتے میں ایک بس بھیجتے تھے لیکن اب ایک ہفتے میں چار سے پانچ بسیں جا رہی ہیں۔

خبرایجنسی رائٹرز کی جانب سےسہراب گوٹھ میں 7 تارکین وطن خاندانوں، 4 طالبان اور پاکستانی حکام، کمیونٹی لیڈرز، رضاکاروں اور وکلا کا انٹرویو کیا گیا، جنہوں نے کہا کہ حکومت کی طرف سے دی گئی وارننگ سے خاندانوں کی مشکلات میں اضافہ ہوا ہے اور قانونی دستاویزات رکھنے والے افغانوں کو بھی واپس جانے پر مجبور کر دیا گیا ہے۔

تاہم نگران وزیر داخلہ نے اس معاملے پر بات کرنے کی درخواست پر کوئی تبصرہ نہیں کیا جبکہ وزارت خارجہ کی ترجمان ممتاز زہرہ بلوچ نے ایک بیان میں کہا کہ انخلا کا منصوبہ بین الاقووامی قواعد اور اصولوں کے عین مطابق ہے، گزشتہ 40 برسوں میں لاکھوں افغان تارکین وطن بہنوں، بھائیوں کی میزبانی کا ریکارڈ منہ بولتا ثبوت ہے۔

خیال رہے کہ ملک سے غیرقانونی تارکین وطن کے انخلا کا اعلان ملک میں متعدد خودکش بم دھماکوں کے بعد آیا ہے جہاں حکومت نے دعویٰ کیا تھا کہ ان میں افغان شہری ملوث ہیں جبکہ ان پر اسمگلنگ اور دیگر مسلح حملوں کا بھی الزام ہے۔

افغانستان میں طالبان حکومت نے پاکستان کی پالیسی کو ’ہراسانی‘ قرار دے دیا ہے۔

واپسی میں اضافہ

پناہ گزینوں پر کام کرنے والی تنظیموں کی طرف سے فراہم کردہ اعداد و شمار کے مطابق ستمبر کے آغاز میں اوسطاً 300 تارکین وطن سرحد عبور کرکے افغانستان جاتے تھے اور جب سے انخلا کا اعلان ہوا اس وقت سے 4 ہزار کے قریب تارکین وطن سرحد عبور کرتے ہیں۔

بلوچستان کے نگران وزیر اطلاعات جان اچکزئی نے کہا کہ یہ اعداد و شمار آنے والے دنوں کے مقابلے میں بہت کم ہے اور صوبائی حکومت مزید تین سرحدیں کھول رہی ہے۔

طورخم بارڈ پر ایک خاندان وطن واپس جانے کے لیے انتظار میں بیٹھا ہوا ہے—فوٹو: اے ایف پی
طورخم بارڈ پر ایک خاندان وطن واپس جانے کے لیے انتظار میں بیٹھا ہوا ہے—فوٹو: اے ایف پی

واضح رہے کہ کئی ہفتوں سے سرکاری ٹیلی ویژن پر انخلا کے متعلق یکم نومبر کی ڈیڈلائن کی مہم بھی چلائی گئی ہے۔

نگران وفاقی وزیر داخلہ سرفراز بگٹی نے خبردار کیا کہ قانون نافذ کرنے والے ادارے ان غیرقانونی تارکین وطن کو نکالنا شروع کریں گے جن کے پاس بدھ (کل) کے بعد پاکستان میں رہنے کا کوئی جواز نہیں ہوگا۔

انہوں نے صحافیوں کو بتایا کہ ان تارکین وطن کے خلاف ’ہولڈنگ سینٹرز‘ پر کارروائی کی جائے گی اور پھر ملک بدر کیا جائے گا۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ خواتین، بچوں اور بزرگوں کے ساتھ باعزت سلوک کیا جائے گا۔

سرفراز بگٹی نے خبردار کیا کہ جو پاکستانی شہری غیر قانونی تارکین وطن کی غلط شناخت یا ملازمت حاصل کرنے میں مدد کریں گے تو انہیں بھی قانونی کارروائی کا سامنا کرنا پڑے گا۔

اقوام متحدہ کے پناہ گزینوں کے ادارے کے ہائی کمشنر برائے مہاجرین (یو این ایچ سی آر) اور انٹرنیشنل آرگنائزیشن فار مائیگریشن (آئی او ایم) نے کہا کہ پاکستان کے منصوبے مجبور خواتین اور لڑکیوں کے لیے سلامتی کے خطرات پیدا کر رہے ہیں۔

اسلام آباد میں پناہ گزینوں کی کیمپ مسمار ہونے کے بعد متاثرین اپنا سامان تلاش کرتے ہوئے—فوٹو: اے ایف پی
اسلام آباد میں پناہ گزینوں کی کیمپ مسمار ہونے کے بعد متاثرین اپنا سامان تلاش کرتے ہوئے—فوٹو: اے ایف پی

تاہم پاکستان کا کہنا ہے کہ قانونی حیثیت کے حامل افغانوں کو نشانہ نہیں بنایا جائے گا، تارکین وطن کے وکلا کے مطابق قانونی دستاویزات کے حامل بہت سے لوگ خود کو بھی نشانہ بناتے ہوئے پائے جاتے ہیں۔

یو این ایچ سی آر کے اعداد و شمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ 18 اکتوبر تک 14 ہزار 700 قانونی دستاویزات کے حامل افغانوں نے پاکستان چھوڑا ہے۔

ایجنسی نے ایک بیان میں کہا ہے کہ حال ہی میں واپس آنے والے 78 فیصد افغانوں نے اپنی روانگی کی وجہ پاکستان میں گرفتاری کا خوف بتایا۔

ہیومن رائٹس واچ نے کہا کہ پاکستانی حکومت غیرقانونی افغان پناہ گزینوں کو افغانستان واپس جانے یا ملک بدر کرنے کے لیے دھمکیوں، بدسلوکی اور حراست میں لینے کے حربے استعمال کر رہی ہے۔

پاکستان میں 22 لاکھ سے زیادہ افغان تارکین وطن ہیں جن کے پاس حکومت کی طرف سے تسلیم شدہ دستاویزات ہیں۔

کراچی ایسٹ کے سپرنٹنڈنٹ پولیس عزیر احمد نے بتایا کہ اگرچہ ہراساں کرنے کے ایک یا دو واقعات ہو سکتے ہیں لیکن یہ منظم طریقے سے نہیں اور اس میں ملوث افراد سے تفتیش کی جائے گی۔

تاہم کچھ افغان باشندے پاکستان میں رہنے کے لیے راستے تلاش کرنے کی کوشش میں ہیں۔

اسلام آباد میں تارکین وطن کا کیمپ مسمار کرنے کے بعد متاثرین وہاں موجود ہیں—فوٹو: اے ایف پی
اسلام آباد میں تارکین وطن کا کیمپ مسمار کرنے کے بعد متاثرین وہاں موجود ہیں—فوٹو: اے ایف پی

14 سالہ لڑکی نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ قانونی دستاویزات نہ ہونے کے باوجود جتنا ممکن ہوگا وہ پاکستان میں رہیں گی۔

انہوں نے کہا کہ ہم گھر واپس نہیں جا رہے کیونکہ افغانستان میں میری تعلیم متاثر ہوگی۔

انہوں نے بتایا کہ ان کے والد نے کہا کہ اگر وہ پاکستانی حکام کے ہاتھوں گرفتار ہوجاتے ہیں تو بھی ہمیں پاکستان نہیں چھوڑنا کیونکہ افغانستان میں ہماری کوئی زندگی نہیں ہے۔

رپورٹ کے مطابق اسلام آباد میں افغان بچوں کے متعدد اسکول آج سے بند ہیں کیونکہ ان کے اہل خانہ گرفتاری کے خوف سے منظر سے غائب ہوگئے ہیں۔

افغانستان پر دباؤ

ایک افغان تارکین وطن خیمہ بستی سے اپنا سامان لاتے ہوئے—فوٹو: اے ایف پی
ایک افغان تارکین وطن خیمہ بستی سے اپنا سامان لاتے ہوئے—فوٹو: اے ایف پی

ادھر پاکستان سے پناہ گزینوں کی واپسی سے افغانستان پر بھی شدید دباؤ آرہا ہے جو کہ بین الاقوامی پابندیوں، غیرملکی امداد منقطع ہونے اور وسائل کی کمی کی وجہ سے پہلے ہی مشکلات کا سامنا کر رہا ہے۔

افغانستان کی وزارت پناہ گزین نے کہا کہ وہ واپس آنے والے شہریوں کی رجسٹریشن کر رہے ہیں اور پھر انہیں عارضی کیمپوں میں رکھا جائے گا اور ان کے روزگار کے لیے بھی کوشش کی جائے گی۔

کارٹون

کارٹون : 22 دسمبر 2024
کارٹون : 21 دسمبر 2024