خیبرپختونخوا: سیز فائر ناکام، ضلع کرم میں جھڑپیں جاری
خیبر پختونخوا کے علاقے کرم میں مقامی علما اور قبائلی عمائدین کی ثالثی میں ایک دن قبل مخالف گروہوں کے درمیان ہونے والا امن معاہدہ جھڑپوں کے نئے سلسلے کے ساتھ مکمل ناکام ہوگیا، جس کے نتیجے میں جاں بحق اور زخمی افراد کی تعداد کا علم نہیں۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق ابھی تک گزشتہ ہفتے سے جاری جھڑپوں میں مرنے والوں کی تعداد کے حوالے سے کوئی باضابطہ بیان جاری نہیں ہوا، مقامی انتظامیہ اس معاملے پر خاموش ہے، کیونکہ ان کو اس بات کا خوف ہے کہ اگر ان جھڑپوں کی زد میں ہلاک ہونے والوں کی تفصیلات جاری ہوگئی تو تصادم دوسرے علاقوں تک پھیل جائے۔
حکام کا صرف اتنا کہنا تھا کہ ایک متنازع ویڈیو کلپ کی وجہ سے تصادم شروع ہوا، جس کا بنیادی عنصر حساس علاقے میں 2 گروہوں کے درمیان زمینی تنازع ہے۔
ہفتے بھر سے جاری جھڑپوں میں اموات کی تعداد 9 سے 30 کے درمیان ہے، دونوں گروپوں کی جانب سے بھاری اور جدید ترین ہتھیاروں کا استعمال کیا گیا۔
ایک حکام نے بتایا کہ ضرورت اس بات کی ہے کہ بنکرز کو تباہ کیا جائے اور علاقے کو ہتھیاروں سے پاک کیا جائے۔
حکام نے اعتراف کیا کہ جنگجو قبائلی ان بنکرز پر قبضہ کر لیتے ہیں اور جب بھی کوئی مسئلہ آتا ہے تو فائرنگ کا سہارا لیتے ہیں، اس کے علاوہ جدید اور بھاری ہتھیاروں کی موجودگی کی وجہ سے قانون نافذ کرنے والے اداروں کے لیے صورتحال کو فوری طور پر کنٹرول کرنا مشکل ہوجاتا ہے۔
اتوار کے روز ایک مقامی جرگے نے دعویٰ کیا تھا کہ انہوں نے ہفتے بھر سے جاری کشیدگی کے بعد مخالف گروہوں کے درمیان جنگ بندی کی ثالثی کی، مگر مسلح جھڑپیں ساتویں دن بھی جاری ہیں۔
ڈپٹی کمشنر کرم سید سیف الاسلام کا کہنا تھا کہ ہم نے کافی حد تک صورتحال پر قابو پا لیا تھا اور فورسز، اراکین جرگہ کے ہمراہ بنکرز خالی کروانے جارہی تھیں جب ایک میزائل فائر کیا گیا۔
ان کا کہنا تھا کہ جرگہ عمائدین اور سیکیورٹی فورسز نے جوابی کارروائی کی، مگر دونوں جانب سے جنگ بندی پر رضامند کروانے کی کوششیں جاری ہیں۔
جرگے کے رکن حاجی نور جف نے یاد کیا کہ مذاکرات کامیاب ہوگئے تھے اور جرگہ بالش خیل علاقے تک پہنچ گیا تھا، مگر امن معاہدہ ہونے کے محض 2 گھنٹے بعد ہی میزائل داغا گیا۔
حاجی نور جف کا کہنا تھا کہ ہم نے پاراچنار کے عمائدین کے ساتھ کامیاب مذاکرات کیے اور لوئر کرم کے عمائدین کے ساتھ بھی بات چیت جاری ہے، ہم جلد از جلد جنگ بندی کے معاہدے کو دوبارہ بحال کرنا چاہتے ہیں۔
ڈپٹی کمشنر نے کہا کہ جنگ بندی کے بعد اہلکاروں کے دستے بنکرز کو کنٹرول کرنے کے لیے تیار تھے، ان کا مزید کہنا تھا کہ علاقے میں امن قائم کرنے کے لیے اقدام کیے جائیں گے۔
اس تنازع نے معمولات زندگی کو بری طرح متاثر کیا ہے، کیونکہ موبائل نیٹ ورکس اور پبلک ٹرانسپورٹ کو معطل کر دیا گیا ہے، مقامی افراد کو اشیائے ضروریہ کی کمی کا بھی سامنا ہے۔