پی ٹی آئی کا منصفانہ انتخابات کے مطالبے پر سیاسی جماعتوں کو اعتماد میں لینے کا فیصلہ
پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) نے شفاف انتخابات اور لیول پلیئنگ فیلڈ کے حصول کے لیے اپنی حکمت عملی کو حتمی شکل دے دی، پارٹی نے فیصلہ کیا ہے کہ آئندہ ہفتے دیگر سیاسی جماعتوں سے رابطے شروع کیے جائیں گے۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق ایک بیان میں بتایا گیا کہ گزشتہ روز پی ٹی آئی کی کور کمیٹی کی ذیلی سیاسی کمیٹی کا اجلاس ہوا جس میں سیاسی صورتحال اور پارٹی کی حکمت عملی سمیت مختلف امور پر غور کیا گیا، تاہم بیان میں یہ نہیں بتایا گیا کہ اجلاس کی صدارت کس نے کی یا یہ کس مقام پر منعقد ہوا۔
ذیلی سیاسی کمیٹی نے پیپلز پارٹی کے اس مطالبے کی توثیق کی جس میں انتخابی مہم کے مساوی مواقع اور شفاف انتخابات کے لیے انتخابی عمل میں پی ٹی آئی کی شمولیت کا مطالبہ کیا گیا تھا۔
سیاسی کمیٹی نے مختلف سیاسی جماعتوں کی جانب سے لیول پلیئنگ فیلڈ اور پی ٹی آئی کی انتخابی عمل میں شمولیت سے متعلق دیے گئے بیانات کا جائزہ لیا۔
اجلاس کے شرکا نے خیال ظاہر کیا کہ رہنما پیپلز پارٹی کا یہ بیان درست سیاسی سوچ کی عکاسی کرتا ہے کہ پی ٹی آئی کی شمولیت کے بغیر انتخابات کے نتائج قابل قبول نہیں سمجھے جائیں گے۔
کمیٹی نے ملک کی مختلف سیاسی جماعتوں کی جانب سے تمام سیاسی جماعتوں کو آزادانہ، منصفانہ، غیر جانبدارانہ اور شفاف انتخابات کے لیے یکساں مواقع فراہم کرنے کے مطالبے کو ایک مثبت رجحان قرار دیا۔
بیان میں کہا گیا کہ پی ٹی آئی تمام وفاقی اکائیوں میں ملک کی سب سے بڑی اور مقبول ترین سیاسی قوت ہے، اس لیے پی ٹی آئی سمیت کسی بھی سیاسی جماعت کو انتخابی عمل سے مصنوعی اور غیرفطری طور پر ’لندن معاہدے‘ کے تحت کسی بھی غیرآئینی اور غیر جمہوری منصوبے کے ذریعے خارج کرنے کی کوششوں کے جمہوریت کے لیے انتہائی تباہ کن نتائج ہوں گے۔
اجلاس میں پی ٹی آئی کو اپنا انتخابی نشان ’بلا‘ فوری جاری کیے جانے کا بھی مطالبہ کیا گیا اور کہا گیا کہ یہ انتخابات کی ساکھ اور شفافیت کے لیے ضروری ہے۔
اجلاس میں اس بات پر زور دیا گیا کہ تحریک انصاف آزادانہ، منصفانہ، شفاف اور فوری انتخابات کے انعقاد کو یقینی بنانے کے لیے ہر مثبت کردار کا خیر مقدم کرے گی۔
اجلاس میں سیاسی کمیٹی نے دیگر سیاسی جماعتوں سے آئندہ ہفتے سے شروع کیے جانے والے رابطوں کے شیڈول پر بھی تفصیلی تبادلہ خیال کیا۔
سوشل میڈیا ورکرز کے خلاف کریک ڈاؤن کی مذمت
دریں اثنا ترجمان پی ٹی آئی نے پارٹی کے سوشل میڈیا کارکنوں پر کریک ڈاؤن کی مذمت کی، انہوں نے ریاستی حکام کے ذریعے میڈیا اور پریس پر سخت پابندیاں عائد کرنے، تنقید اور اختلاف رائے کو جرم قرار دینے اور پارٹی کے سوشل میڈیا کارکنوں کے خلاف جاری ملک گیر کریک ڈاؤن پر افسوس کا اظہار کیا۔
ترجمان پی ٹی آئی نے سپریم کورٹ سے شہریوں کے بنیادی حقوق کا تحفظ کرنے اور خصوصاً تعلیم یافتہ نوجوانوں کے خلاف ریاستی حملے کا فوری طور پر مقابلہ کرنے کا مطالبہ کیا۔
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان پر عملاً مارشل لا نافذ کیا جا چکا ہے اور آئین، قانون، اخلاقیات اور سماجی ضوابط کا کوئی لحاظ نہیں رکھا جا رہا۔
انہوں نے نشاندہی کی کہ ریاست احتساب کے خوف کے بغیر فرد کا تقدس، جان و مال کی حفاظت، اظہار رائے کی آزادی، پرامن سیاسی سرگرمیوں میں شرکت، منصفانہ ٹرائل، انصاف تک رسائی اور ووٹ کے حق سمیت تمام بنیادی آئینی حقوق کی خلاف ورزی کرنے میں مصروف ہے۔
ترجمان پی ٹی آئی نے الزام عائد کیا کہ تنقید اور اختلاف رائے کو طاقت کے ذریعے دبانے کا کام پیمرا کے بعد وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے) کو بھی سونپ دیا گیا ہے، اس حوالے سے الیکشن کمیشن خاموش ہے۔
دوسری جانب پی ٹی آئی رہنما اسد قیصر نے جمعیت علمائے اسلام (ف) کی جانب سے پارٹی سربراہ مولانا فضل الرحمٰن سے پی ٹی آئی کے وفد کی ملاقات کی تصاویر اور ویڈیوز جاری کرنے پر اعتراض کیا۔
سابق اسپیکر قومی اسمبلی نے وضاحت کی کہ پی ٹی آئی کے وفد نے باجوڑ خودکش بم دھماکے پر تعزیت کے لیے مولانا فضل الرحمٰن سے ملاقات کی تھی۔
یاد رہے کہ جولائی میں ہونے والے اس دھماکے میں جے یو آئی (ف) کے ورکرز کنونشن کو نشانہ بنایا گیا تھا، جس میں 40 سے زائد افراد جاں بحق ہوگئے تھے۔