نواز لیگ سندھ کا بحران
مسلم لیگ نون کی مرکزی قیادت کی جانب سے پارٹی کے سندھ سے تعلق رکھنے والے رہنماؤں کو مسلسل نظرانداز کرنے پرپارٹی کی صفوں میں مایوسی پھیل گئی ہے۔پارٹی کے صوبائی صدر سید غوث علی شاہ نے عہدے سے استعیفا دے دیا ہے۔ وہ آٹھ ستمبر کو اپنے نئے لائحہ عمل کا اعلان کریں گے۔ دریں اثناء سندھ کے بعض مسلم لیگی رہنماؤں نے حال ہی میں ایک اجلاس منعقد کیا۔یلکن اس اجلاس نے الٹا نتیجہ ظاہر کیا کہ پارٹی تین دھڑوں میں بٹی ہوئی ہے۔
وزیر اعظم نواز شریف گزشتہ دنوں سیلاب کی صورتحال کا جائزہ لینے کے لیے جب گھوٹکی پہنچے توان کا ستقبال وزیر اعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ اور پیپلز پارٹی کیاراکین اسمبلی نے کیا۔ سلیم ضیا واحد مسلم لیگی رہنماتھے جو ان کے ساتھ تھے۔ پارٹی کے اہم رہنما بشمول صوبائی صدر سید غوث علی شاہ ، لیاقت جتوئی، اور ممتاز بھٹو ، الاہی بخش سومرو دورہ سندھ کے دوران غائب تھے۔ یہاں تک کہ وزیر اعظم کے ساتھ سندھ سے تعلق رکھنے والے وفاقی وزراء حکیم بلوچ، پیر صدرالدین شاہ یا غلام مرتضیٰ جتوئی بھی نہیں تھے۔ لگتا ہے کہ خود وزیراعظم نے ان کو لفٹ نہیں کرائی۔
گھوٹکی کا دورہ کوئی پہلا موقعہ نہیں کہ پارٹی کے سندھ کے رہنماؤں نے ایسا کیا، یا وزیراعظم نے خود اپنی پارٹی کے لوگوں کے ساتھ ایسا کیا۔ اس سے پہلے کراچی کے دورے کے موقعہ پر بھی پارٹی کا کوئی اہم رہنما موجود نہیں تھا۔چند روز قبل مسلم لیگ (ن) کے رہنما عرفان اللہ مروت نے کہا تھا کہ پارٹی کے رہنما سید غوث علی شاہ نے مایوس ہوکر خاموشی اختیار کر لی ہے۔لیکن اب تو انہوں نے استعیفا دے دیا ہے۔ ناراضگی کی وجہ صدارت کے عہدے کے لیے سندھ سے کسی رہنما کو نامزد نہ کرنا، ایم کیو ایم سے قربت کے وقت مشاورت نہ کرنا اور مجموعی طور پر سندھ کے رہنماؤں کو نظرانداز کرنا بتایا جاتا ہے۔
صوبے کے پارٹی رہنما ناراض ہیں، مگر تاحال کوئی ان کو منانے کی کوئی کوشش نہیں کی گئی۔
لگتا ہے کہ پارٹی کے صوبائی صدر کے استعیفا پرمرکزی قیادت کو کوئی فکر نہیں۔ پارٹی کے ایک ذمہ داررہنما کا بیان قابل ذکر ہے جس میں انہوں نے کہا کہ شاہ صاحب انتخابات میں احسن کارکردگی نہ دکھا سکتے اس وہ سے خود ہی شرم محسوس کرتے ہوئے اسعتفا دے دیا ہے۔لیکن کارکردگی کے سوال نے پینڈورا باکس کھول دیا ہے۔
پارٹی حلقوں میں چرچہ ہے کہ نو منتخب صدرممنون حسین نے انتخابات خواہ اس سے پہلے کونسی کارکردگی دکھائی تھی؟ کراچی میں پارٹی نے کتنی نشستیں حاصل کیں اور کتنے ووٹ حاصل کئے؟ذرائع کا کہنا ہے کہ عام انتخابات کے بعد لاہور میں منعقدہ پارٹی کے ایک اجلاس میں سید غوث علی شاہ کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔ اس موقعہ پر شاہ صاحب نے کہا کہ انہوں اکیلے ہونے کے باوجود صوبائی اور قومی اسمبلی کی نشستوں پر سوا لاکھ سے زائد ووٹ حاصل کئے ہیں۔
میاں نواز شریف سمیت پارٹی کا کوئی مرکزی لیڈر انتخابی مہم کے دوران یا اس سے پہلے خیرپور نہیں آئے ۔ جبکہ نواز شریف نے لاڑکانہ، دادو، بدین اورٹھٹہ کا دورہ کیا تھا۔ نتیجے میں ممتاز بھٹو، لیاقت جتوئی ، سید ظفر علی شاہ، شیرازیوں، ٹنڈو الہیار کے مگسی، اسماعیل راہو نے کونسی کارکردگی دکھا دی تھی؟
نواز لیگ کا یہ المیہ ہے کہ سندھ سے پارٹی میں شمولیت اختیار کرنے والوں کے میاں صاحب سے براہ راست رابطے تھے۔ انہوں نے کسی بھی مرحلے پر پارٹی کی صوبائی قیادت کو پوچھا بھی نہیں۔ یہ سب لوگ صوبائی صدر کو اعتماد میں لیے بغیر اپنے طور پر فیصلے کرتے تھے۔
خیال تھا کہ غوث علی شاہ کے استعیفا کے بعد سندھ کے رہنماؤں کو بلایا جائے گا اور صلاح مشورہ کیا جائے گا۔ مگر ایسا نہیں کیا گیا۔ لیاقت جتوئی گروپ نے موقعہ غنیمت جانا اور اپنے ہم خیالوں کو جمع کر لیاکہ مرکزی قیادت ان سے بات چیت کرے۔
لیاقت جتوئی کے گھر پر منعقدہ اجلاس کے بعد پارٹی چار دھڑوں میں بٹی ہوئی لگتی ہے۔ اسماعیل راہو، امداد چولیانی، ظفر علی شاہ، شیرازی برادران پر مشتمل گروپ نے اس اجلاس میں شرکت کی۔
دوسرا گروپ سید غوث علی شاہ کے حامی کارکنوں کا ہے۔ تیسرے گروپ میں الاہی بخش سومرو اور منتخب نمائندے مرتضیٰ جتوئی، حکیم بلوچ، شفیع محمد جاموٹ، ماروی میمن، زین انصاری شامل ہیں۔ ان لوگوں ے لیاقت جتوئی کے طلب کردہ اجلاس میں شرکت نہیں کی۔ چوتھا سلیم ضیا کا گروپ جو میاں صاحب کے قریب ہے۔ باتیں تو پیپلز پارٹی میں فارورڈ بلاک بنانے کی ہو رہی تھیں لیکن اس سے پہلے خود نواز لیگ صوبے میں بحران کا شکار ہو گئی ہے۔
اجلاس میں اگرچہ میاں نواز شریف کی قیادت پر اعتماد کا اظہار کیا گیا لیکن اجلاس کے شرکاء کی باتوں سے لگ رہا تھا کہ ان کو بڑے شکوے ہیں۔ انہوں نے پارٹی قیادت کے رویے پر افسوس کا اظہار بھی کیا۔لیاقت جتوئی، منظور پنہور، اور کچھ دیگر رہنما دو تین ہفتے تک اسلام آباد میں ٹھہرے ہوئے تھے لیکن ان کو لفٹ نہیں کرائی گئی۔
شیرازی برداران پر درجن بھر مقدمات درج ہوئے لیکن پارٹی نے ان کی کوئی مدد نہیں کی۔ نواز شریف اظہار ہمدردی کے طور پر دو لفظ بھی نہیں کہے۔نواز شریف صرف شیرازیوں کی وجہ سے پیپلز پارٹی سے بگاڑنا نہیں چاہتے تھے۔جن کی وفاداری مشکوک ہے۔ وہ کبھی پیپلز پارٹی کبھی قاف لیگ تو کبھی نواز لیگ میں آتے جاتے رہے ہیں۔پارٹی کے اس اجلاس میں شیرازیوں کو خوش کرنے کے لیے وزیراعظم سے مطالبہ کیا گیا کہ پارٹی کے ان رہنماؤں کے حامیوں پر قائم مقدمات کی چھان بین کے لیے کمیٹی تشکیل دی جائے۔
مسلم لیگ کے رہنماؤں کاشکوہ ہے کہ سندھ کے دورے کے دوران ان سے نہ وزیر اعظم نے اور نہ ہی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے ملاقات کی۔ بلکہ ان کو ٹائیم ہی نہیں دیا گیا۔
اب نواز لیگ کے سامنے سوال ہے کس کو اس حساس صوبے کا صدر بنائے؟ اس کے سامنے چوائس لیاقت جتوئی ، اسماعیل راہو، امداد چولیانی، ماروی میمن ہیں۔
ممتاز بھٹو چوائس ہو سکتے تھے لیکن پارٹی کی ایم کیو ایم سے قربت کے بعد انہوں نے اپنی راہیں تقریبا جدا کرلیں ہیں اور وہ اپنی پارٹی کو دوبارہ زندہ کرنے کے بارے میں سوچ رہے ہیں۔
لیاقت جتوئی نے جنرل مشرف کا ساتھ دیا تھا اور ان کے وزیر پانی و بجلی بھی رہے۔ انہوں نے انتخابی مہم شروع ہونے سے چند ماہ پہلے پارٹی میں شمولیت اختیار کی تھی۔نواز لیگ نے پہلے تو مشرف کے ساتھیوں کو پارٹی میں کوئی جگہ نہ دینے کا اعلان کیا تھا، لیکن انتخابات جیتنے کے لیے اس کو اپنی پالیسی تبدیل کرنی پڑی۔ اور ایک درجن سے زائد مشرف کے ساتھیوں کو شامل کرنا پڑا۔ مانا کہ اسمبلی کی نشست کے لیے یہ کڑوا گھونٹ پینا سیاسی مصلحت تھا۔ لیکن پارٹی کی صوبائی صدارت ایک ایسے شخص کو دے دی جائے گی؟
ماروی میمن نے انتخابات سے پہلے صوبے میں پارٹی منظم کرنے کے لیے بڑی بھاگ دوڑ کی۔ لیکن جب میاں صاحب الیکٹ ایبل ڈھونڈنے لگے تو وڈیروں نے پہلی شرط یہ رکھی کہ اس بی بی کو کونے میں بٹھادیا جائے۔ اور یہی کیا گیا۔
اسماعیل راہو کا نواز لیگ سے لمبا ساتھ ہے۔لیکن وہ بھی گزشتہ سال پیپلز پارٹی میں شمولیت کے لیے پر تول رہے تھے۔ ان کی شمولیت کی تقریب کے بھی انتظام ہوگئے تھے۔ لیکن عین وقت پر راہو صاحب نے پیپلز پارٹی میں شمولیت کا فیصلہ تبدیل کردیا جب انہیں میاں صاحب کا پیغام ملا کہ پیپلز پارٹی کو اقتدار نہیں مل رہا ہے۔ اس ۔امداد چولیانی کی پارٹی کے ساتھ طویل وابستگی رہی ہے۔ ان پر کوئی وفاداری تبدیل کرنے کا بھی الزم نہیں ہے۔ وہ پارٹی کی صوبائی صدر کے لیے چوائس ہوسکتے ہیں۔ لیکن ان کی صحت شاید اتنی بڑی ذمہ داری اٹھانے کی اجازت نہ دے۔
دیکھنا یہ صوبائی صدارت کس گروپ کے حصے میں آتی ہے اور باقی گروپ کونسی راہ اختیار کرتے ہیں۔
سندھ میں پارٹی کو چار چیلینج درپیش ہیں۔ پہلا چیلنج اپنے قوم پرست اتحادیوں کا کھونا ہے جن کو اقتدار کے حوالے سے کچھ نہیں دے سکی۔دوسرا پارٹی کی پالیسیاں ہیں جس پر اعتراض اٹھائے جا رہے ہیں کہ ان پالیسیوں میں سندھ کو نظرانداز کیا جارہا ہے۔
تیسراپارٹی کے رہنماؤں کو نظرانداز کنے کی شکایت ہے جنہیں سندھ کے بارے میں فیصلوں کے لیے اعتماد میں نہیں لیا جارہا ہے اور نہ ہی سندھ کے دورے کے دوران ٹائیم دیا جارہا ہے۔ چوتھا پارٹی کے اندرونی اختلافات ہیں۔یہ چاروں چیزیں پارٹی کے اندر عدم استحکام کو
ظاہر کرہی ہیں۔ وفاق میں حکومت کرنے والی پارٹی سندھ جیسے صوبے میں انتشار اور بحران کا شکار ہو، یہ سیاسی طور پر نقصان دہ سمجھی جائیگی۔
تبصرے (1) بند ہیں