ملٹری ٹرائلز کی تیزی سے تکمیل کیلئے سپریم کورٹ سے رجوع
ایسے وقت میں جب کہ سپریم کورٹ میں فوجی عدالتوں میں عام شہریوں کے مقدمات کی سماعت کے خلاف درخواستوں کی سماعت جا رہی ہے تو آرمی ایکٹ کے تحت مقدمات کا سامنا کرنے والے کم از کم 9 ملزمان نے فوجی عدالتوں کے ذریعے اپنے مقدمات جلد نمٹانے کے لیے سپریم کورٹ سے رجوع کرلیا ہے۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق جسٹس اعجاز الاحسن کی سربراہی میں پانچ رکنی بینچ آج فوجی عدالتوں میں شہریوں کے ٹرائل کے خلاف درخواستوں پر سماعت شروع کرے گا، بینچ میں جسٹس منیب اختر،جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس سید مظاہر علی اکبر نقوی اور جسٹس عائشہ اے ملک شامل ہیں، بینچ فوجی عدالتوں کے خلاف 13 مختلف درخواستوں پر سماعت کرے گا۔
عام شہریوں کے فوجی عدالتوں میں مقدمات کی سماعت کے خلاف یہ درخواستیں سابق چیف جسٹس جواد ایس خواجہ، سینئر وکیل اعتزاز احسن، کرامت علی، زمان خان وردگ، جنید رزاق، سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن، پی ٹی آئی کے سربراہ عمران خان، حفیظ اللہ خان نیازی، ریٹائرڈ لیفٹیننٹ کرنل انعام الرحیم اور نعیم اللہ قریشی کی جانب سے دائر کی گئی ہیں۔
تازہ درخواستوں میں عدالت عظمیٰ سے استدعا کی گئی کہ وہ فوجی حکام کو آرمی ایکٹ کے تحت ٹرائل کو تیز کرنے کا کہے، یہ درخواستیں خلمت خان، اعجاز الحق، محمد راشد، عبدالستار، راشد علی، محمد عبداللہ، عمر محمد، حسن شاکر اور فیصل ارشاد کی جانب سے دائر کی گئیں۔
9 مئی کو ہونے والے پرتشدد واقعات میں عام شہریوں کے ساتھ ساتھ فوجی تنصیبات کو بھی نشانہ بنایا گیا تھا، ان حملوں کے بعد مجموعی طور پر 102 افراد کو حراست میں لیا گیا تھا، ان حملوں میں راولپنڈی میں جنرل ہیڈکوارٹرز، کور کمانڈر لاہور کی رہائش گاہ، پی اے ایف بیس میانوالی اور فیصل آباد میں آئی ایس آئی کے دفتر سمیت فوجی تنصیبات کو نشانہ بنایا گیا تھا۔
اپنی درخواستوں میں ملزمان نے سپریم کورٹ سے استدعا کی کہ انہیں مقدمے میں ’ضروری فریق‘ کے طور پر شامل کیا جائے جب کہ یہ تمام افراد 9 مئی کے واقعات میں ملوث ہیں اور تحقیقات و ٹرائل کے لیے اس وقت فوجی حکام کی تحویل میں ہیں۔
اس میں کہا گیا ہے کہ یہ ملزمان اس کیس میں متاثرہ فریق ہیں، درخواست گزاروں کا کہنا ہے کہ تفتیش کے دوران فوجی حکام نے انہیں کبھی تشدد کا نشانہ نہیں بنایا۔
انہوں نے استدعا کی کہ عدالت عظمیٰ کی جانب سے فوجی حکام سے کہا جائے کہ وہ پاکستان آرمی ایکٹ 1952 کے تحت رولز اور اس کے تحت بنائے گئے قوانین کے تحت مقدمہ چلائیں تاکہ انہیں جلد انصاف فراہم کیا جا سکے۔
ملزمان کے مطابق ان کی درخواستیں بغیر کسی دباؤ اور جبر کے ان کی مرضی سے کمانڈنگ افسر کے سامنے پیش کی گئیں۔
درخواست میں کہا گیا ہے کہ وہ متاثرہ فریق ہیں، زیر التوا کیسز میں ان کے اہم حقوق کا معاملہ زیر بحث ہے، درخواستوں میں مزید کہا گیا کہ اگر درخواست گزاروں کو کیس میں فریقین کے طور پر شامل نہیں کیا گیا، انہیں سنا نہیں گیا تو انہیں نقصان ہو گا، وہ اپنے اہم قانونی حقوق سے محروم ہو جائیں گے۔
درخواستوں میں مزید کہا گیا کہ بطور متاثرہ فریق درخواست گزاروں کو ضروری سمجھا جانا چاہیے اور ان کی شکایات کے ازالے کے لیے انہیں کیس میں پروپر پارٹی بنایا جائے۔
ملزمان نے استدعا کی کہ متعلقہ حکام کو ہدایت کی جائے کہ درخواست گزاروں کے ٹرائل کو بطریق احسن آگے بڑھایا جائے اور انصاف کی فراہمی کے لیے ٹرائل کو جلد از جلد مکمل کیا جائے۔
وفاقی حکومت نے متفرق درخواست میں سپریم کورٹ کو بتایا کہ 9 اور 10 مئی کے واقعات کی روشنی میں 102 افراد گرفتار کیے گئے، زیر حراست افراد کے مفاد کو مدنظر رکھتے ہوئے ٹرائل کیا جا رہا ہے اور جو فوجی عدالتوں میں ٹرائل میں قصوروار ثابت نہ ہوا وہ بری ہوجائے گا۔
متفرق درخواست کے مطابق فوجی عدالتوں میں ہونے والا ٹرائل سپریم کورٹ میں جاری مقدمے کے فیصلے سے مشروط ہوگا، فوجی عدالتوں میں ٹرائل کے بعد جو قصوروار ثابت ہوگا ان کو معمولی سزائیں ہوں گی جبکہ 9 اور 10 مئی کے واقعات میں ملوث جو افراد جرم کے مطابق قید کاٹ چکے انہیں رہا کر دیا جائے گا، فوجی ٹرائل کے بعد سزا یافتہ افراد قانون کے مطابق سزاؤں کے خلاف متعلقہ فورم سے رجوع کر سکیں گے۔