خواتین پر تشدد سے متعلق مقدمات پر فوری توجہ دینے کے لیے کمیشن کا چیف جسٹس کو خط
نیشنل کمیشن آن دی اسٹیٹس آف ویمن کی چیئرپرسن نیلوفر بختیار نے چیف جسٹس آف پاکستان قاضی فائز عیسیٰ کو خط لکھ کر خواتین پر تشدد سے متعلق مقدمات پر فوری توجہ دینے کا مطالبہ کیا ہے۔
اتوار کو لکھے گئے خط میں کمیشن کو پاکستان میں خواتین کے ساتھ امتیازی سلوک سے نمٹنے کے لیے ایک قانونی ادارہ قرار دیا گیا ہے۔
خط میں کہا گیا ہے کہ کمیشن خواتین کے سماجی، معاشی، سیاسی اور قانونی حقوق کو فروغ اور تحفظ فراہم کرنے کا پابند ہے جس کی آئین میں ضمانت دی گئی ہے۔
خط میں نیلوفر بختیار نے ملک میں خواتین کے خلاف تشدد کے تشویشناک مسئلے کو اجاگر کرتے ہوئے کہا کہ بدقسمتی سے نور مقدم قتل کیس جیسے گہرے پریشان کن کیسز اس سلسلے میں بحران سے نمٹنے کے لیے جامع اور موثر ردعمل کی فوری ضرورت کو اجاگر کرتے ہیں۔
27 سالہ نور مقدم کو 20 جولائی 2021 کو اسلام آباد کے پوش علاقے سیکٹر ایف-7/4 میں قتل کر دیا گیا تھا اور مقدمے کی ایف آئی آر اسی دن تعزیرات پاکستان کی دفعہ 302 کے تحت مقتول کے والد اور ریٹائرڈ سفارتکار شوکت مقدم کی مدعیت میں ظاہر جعفر کے خلاف درج کی گئی تھی جسے جائے حادثہ سے گرفتار کیا گیا تھا۔
24 فروری 2022 کو اسلام آباد کی سیشن کورٹ نے ظاہر جعفر کو سزائے موت سنائی تھی، عدالت نے اسے ریپ کا مجرم بھی قرار دیا تھا اور 25 سال قید اور 2 لاکھ روپے جرمانے کی سزا سنائی تھی جبکہ ظاہر کے گھریلو ملازمین محمد افتخار اور جان محمد کو بھی 10 سال قید کی سزا سنائی گئی تھی۔
خط میں مذکورہ کیس کا حوالہ دیتے ہوئے کمیشن کی چیئرپرسن نے کہا کہ نور کی سالگرہ 23 اکتوبر کو آتی ہے جو ہمیں ختم ہو جانے والی زندگیوں کے ساتھ ساتھ ان لاتعداد لوگوں کی یاد بھی دلاتی ہے جن کی جانیں خطرے میں ہیں۔
انہوں نے کہا کہ میں آپ سے گزارش کرتی ہوں کہ اس طرح کے کیسز کا پاکستان بھر میں خواتین کی حفاظت اور بہبود پر مرتب ہونے والے اثرات کے حوالے سے جائزہ لیں۔
ان کا کہنا تھا کہ جلد انصاف کی فراہمی کی اہمیت کو سمجھا نہیں جا سکا لیکن فوری اور شفاف قانونی عمل متاثرین اور ان کے خاندانوں کو مقدمے کو بند اور ممکنہ مجرموں کو روکنے میں مددگار ثابت ہوتا ہے۔
نیلوفر بختیار نے مزید کہا کہ خواتین کے خلاف تشدد کے سلسلے کی روک تھام میں احتساب انتہائی اہمیت کا حامل ہے اور چیف جسٹس اس سلسلے میں ایک مثبت تبدیلی لانے میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔
انہوں نے اپنے خط میں چیف جسٹس سے استدعا کی ہے کہ آپ اپنے دفتر کو خواتین کے خلاف تشدد سے متعلق مقدمات کو ترجیح دیتے ہوئے ان کی جلد از جلد سماعت کے لیے استعمال کریں، بروقت ٹرائل اور قصورواروں کو مناسب سزا کو یقینی بنانا ایک طاقتور پیغام دے سکتا ہے کہ ہمارے معاشرے میں اس طرح کی گھناؤنی حرکتوں کو برداشت نہیں کیا جائے گا۔
نیشنل کمیشن آن دی اسٹیٹس آف ویمن کی چیئرپرسن نے مزید کہا کہ ایک تیز عدالتی ردعمل پاکستان میں خواتین کے تحفظ سے متعلق بیانیے کو تبدیل کرنے میں اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔
اس کے علاوہ نیشنل کمیشن آن دی اسٹیٹس آف ویمن کی ترجمان فاطمہ بتول نے ڈان نیوز ڈاٹ ٹی وی کو بتایا کہ خط کا مسودہ 18 اکتوبر کو تیار کیا گیا تھا اور اسے 21 اکتوبر کو چیف جسٹس کو ارسال کیا گیا۔
صنفی بنیاد پر تشدد کے واقعات میں اضافہ
رواں سال کے اوائل میں جاری ایک رپورٹ میں نیشنل کمیشن آف ہیومن رائٹس نے کہا تھا کہ پاکستان میں گزشتہ تین سالوں کے دوران صنفی بنیاد پر تشدد کے تقریباً 63 ہزار واقعات رپورٹ ہوئے جن میں سے تقریباً 4 ہزار 2020 کی پہلی ششماہی میں رپورٹ ہوئے جب کورونا وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے لاک ڈاؤن نافذ کیا گیا تھا۔
کمیشن نے انسانی حقوق کی وزارت کے اعداد و شمار کا حوالہ دیتے ہوئے کہا تھا کہ ان 63 ہزار میں سے 80 فیصد واقعات گھریلو تشدد سے متعلق ہیں جب کہ 47 فیصد ڈومیسٹک ریپ کے کیسز ہیں جہاں شادی شدہ خواتین کو جنسی استحصال کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
رپورٹ میں خبردار کیا گیا کہ اصل کیسز کی تعداد اس سے کہیں زیادہ ہو سکتی ہے کیونکہ یہ ڈیٹا رپورٹ شدہ کیسز پر مبنی ہے۔