• KHI: Asr 4:13pm Maghrib 5:49pm
  • LHR: Asr 3:27pm Maghrib 5:05pm
  • ISB: Asr 3:27pm Maghrib 5:05pm
  • KHI: Asr 4:13pm Maghrib 5:49pm
  • LHR: Asr 3:27pm Maghrib 5:05pm
  • ISB: Asr 3:27pm Maghrib 5:05pm

پاکستان میں چھاتی کے سرطان کی بڑھتی ہوئی شرح کو کیسے روکا جائے؟

شائع October 23, 2023

لکھاری ایک محقق اور ڈاکٹر ہیں جو کراچی میں ٹرشیئری کیئر اسپتال کے لیے کام کر رہی ہیں۔
لکھاری ایک محقق اور ڈاکٹر ہیں جو کراچی میں ٹرشیئری کیئر اسپتال کے لیے کام کر رہی ہیں۔

چھاتی کے سرطان سے متعلق آج کے اعدادوشمار کا ایک دہائی پہلے سے موازنہ کیا جائے تو ہمارے سامنے کچھ حیران کن حقائق آتے ہیں۔ خواتین میں چھاتی کے سرطان کی تشخیص کی اوسط عمر 60 کے بجائے 30 یا 40 سال ہوگئی ہے۔ آج نوجوان لڑکیاں بھی اس بیماری کا شکار ہو رہی ہیں۔ جس سے پاکستان جیسے ممالک کے لیے صورتحال مزید پیچیدہ ہوتی جارہی ہے جہاں دیگر ایشیائی ممالک کے مقابلے میں چھاتی کا سرطان زیادہ پایا جاتا ہے۔

گلوبوکین 2020ء کے مطابق پاکستان میں 2020ء میں چھاتی کے سرطان کے کُل تشخیص شدہ کیسز کی تعداد 25 ہزار 928 تھی۔ یہ اس سال تشخیص ہونے والے کینسر کیسز کا 14.5 فیصد تھے۔ ’ہر نو میں سے ایک‘ پاکستانی خاتون کا چھاتی کے سرطان میں مبتلا ہونے کا تناسب بھی کافی خوفناک اور تشویشناک ہے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ دیگر ایشیائی ممالک کے مقابلے میں پاکستان میں چھاتی کے سرطان سے اموات کی شرح بھی سب سے زیادہ ہے۔

زنیرہ شوکت اور دیگر محققین کی طرف سے کی گئی ایک تحقیق سے ظاہر ہوا کہ تحقیق میں شامل خواتین میں سے حیران کن طور پر 63.2 فیصد کو چھاتی کے سرطان کے بارے میں علم نہیں تھا اور 64.7 فیصد میموگرافی اسکریننگ کے حوالے سے لاعلم تھیں۔ ایک ایسا ملک جہاں اس سرطان کے کیسز اتنے زیادہ ہوں، وہاں بڑی تعداد کی لاعلمی ظاہر کرتی ہے کہ ہمیں اس حوالے سے آگاہی اور معلومات فراہم کرنے کی کتنی سخت ضرورت ہے۔ یہ بات بھی سامنے آئی کہ چھاتی کے سرطان کے حوالے سے معلومات کی کمی کی وجہ صرف ناقص تعلیم نہیں کیونکہ بہت سے پڑھے لکھے مریضوں کو بھی اس بیماری کی بروقت تشخیص کے طریقے اور اہمیت کے بارے میں نہ ہونے کے برابر شعور تھا۔

پاکستان میں چھاتی کے سرطان کے بڑھتے ہوئے کیسز کی وجوہات اور انہیں کم کرنے کے طریقوں پر کافی عرصے سے بحث جاری ہے۔

چھاتی کے سرطان کا باعث بننے والے کچھ عوامل ایسے ہوتے ہیں جن پر ہمیں کوئی اختیار حاصل نہیں ہوتا جیسے بڑھتی ہوئی عمر، جینیاتی تغیرات، خاندانی تاریخ وغیرہل جبکہ کچھ عوامل ایسے ہیں جنہیں تبدیل کرکے چھاتی کے سرطان سے بچا جاسکتا ہے۔ مثال کے طور پر ایسی طرزِ زندگی جس میں زیادہ حرکت نہ ہو، ہارمون تھراپی کروانا۔ اس کے علاوہ چند عادات جیسے تمباکونوشی چھوڑنا وغیرہ بھی اس میں شامل ہیں۔

اس سے زیادہ اہم بات یہ ہے کہ پاکستان میں بہت سی خواتین ان عوامل کے بغیر ہی چھاتی کے سرطان کا شکار ہوجاتی ہیں، یعنی ضروری نہیں کہ جن خواتین میں چھاتی کے سرطان کا باعث بننے والے عوامل موجود ہوں وہی اس کا شکار ہوں۔ اسی لیے اگلا آپشن اسکریننگ، بروقت تشخیص اور خطرات کو کم کرنے کا ہے۔ چھاتی کے سرطان کا علاج صرف اسی وقت ممکن ہے جب اس کی تشخیص ابتدائی اسٹیج پر ہو جبکہ یہ علاج زیادہ پیچیدہ بھی نہیں اور نہ ہی زیادہ مہنگا ہے۔ دنیا بھر میں سب سے زیادہ توجہ اسی بات پر دی جارہی ہے کہ ابتدائی مرحلے میں ہی سرطان کی تشخیص ہوجائے جوکہ صرف عوام کو آگاہی فراہم کرنے سے ہی ممکن ہے۔

ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں ہر سال چھاتی کے سرطان کے 83 ہزارکیسز رپورٹ ہوتے ہیں اور ان میں سے زیادہ تر خواتین کی تشخیص ایڈوانس اسٹیج میں ہوتی ہے۔ خواتین میں خواندگی کی کم شرح کے علاوہ چھاتی کے سرطان کی علامات اور روک تھام کے بارے میں لاعلمی تشخیص میں ہونے والی تاخیر کی بڑی وجوہات ہیں۔

شایدکوئی یہ ماننا چاہے گا کہ حکومت اور این جی اوز کے اقدامات کی وجہ سےخواتین اس سرطان کے خطرے اور اس کے اثرات سے واقف ہوں گی لیکن دیہی علاقوں میں تحقیق اور اعدادوشمار کے جائزے سے افسوسناک حقائق سامنے آتے ہیں۔

امریکن کینسر سوسائٹی کے مطابق 40 سے 44 سال کے درمیان عمر کی تمام خواتین کو سالانہ بنیاد پر میموگرامز کے ذریعے چھاتی کے سرطان کی اسکریننگ کا اختیار دیا جانا چاہیے جبکہ 45 سے 54 سال عمر کی خواتین کو ہر سال میموگرام کروانا چاہیے۔ بدقسمتی سے ہمارے معاشرے میں میموگرافی کی سہولت صرف اس طبقے کو دستیاب ہے جو اس کے اخراجات اٹھا سکتا ہے۔

سرکاری اسپتالوں میں اسکریننگ کی سہولیات بہت کم ہیں جبکہ دیہی علاقے تو بنیادی صحت کی سہولیات سے ہی محروم ہیں، اس لیے خصوصی اسکریننگ سروس کی توقع کرنا صرف ایک لاحاصل چیز ہے۔ انسٹی ٹیوٹ آف ریڈیو تھراپی اینڈ نیوکلیئر میڈیسن کے تعاون سے خیبرپختونخوا کے 7 اسپتالوں میں اسکریننگ یونٹس کے قیام کے منصوبے کے پی سی ون کی منظوری گزشتہ سال دی گئی تھی تاکہ عوام کے لیے ’عالمی معیار کی اسکریننگ سہولیات کی مفت دستیابی‘ کو یقینی بنایا جا سکے۔ منصوبے کو انتظامی مسائل کا سامنا کرنا پڑا اور اس میں تاخیر ہوئی لیکن فعال ہونے کے بعد یہ خیبرپختونخوا میں لوگوں کی فلاح و بہبود کو یقینی بنانے کی طرف ایک اہم قدم ہوگا۔ ایک اور قابل ذکر منصوبہ اندرون سندھ شکار پور میں ’خاص‘ اسپتال ہے جس کا حال ہی میں افتتاح ہوا ہے۔

چھاتی کے سرطان کی تشخیص میں نسبتاً ایک نیا معیار جینیاتی ٹیسٹنگ ہے۔ آج تک BRCA-1 اور BRCA-2 جین کی تبدیلی چھاتی اور بیضہ دانی کے کینسر کے لیے سب سے زیادہ خطرے والے عوامل ہیں۔ بدقسمتی سے اس کے فوائد کے باوجود ان ٹیسٹوں میں کئی رکاوٹیں ہیں، خاص طور پر کم اور درمیانی آمدنی والے ترقی پذیر ممالک میں۔

اگرچہ حکومت اور این جی اوز کی جانب سے آگاہی پھیلانے کی کاوشیں قابلِ شتائش ہیں لیکن مستقبل کی صحت کی پالیسی کے فریم ورک میں ٹھوس خصوصیات کی ضرورت ہے جیسے کہ دور دراز کے علاقوں میں مزید اسکریننگ سینٹرز اور ضرورت مند مریضوں کے لیے سبسڈی والے BRCA میوٹیشن ٹیسٹنگ کیونکہ ہم اس بات کو نظرانداز نہیں کرسکتے کہ کینسر کے کُل کیسز میں چھاتی کے سرطان کی سالانہ شرح 12.5 فیصد ہے۔


یہ مضمون 19 اکتوبر 2023ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔

نویرا علی بنگش

لکھاری ایک محقق اور ڈاکٹر ہیں جو کراچی میں ایک ٹرشیئری کیئر اسپتال کے لیے کام کر رہی ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

کارٹون

کارٹون : 23 دسمبر 2024
کارٹون : 22 دسمبر 2024