مصر میں زیر تعلیم غزہ کے طلبہ اپنے اہل خانہ کیلئے شدید تشویش میں مبتلا
مصر میں زیر تعلیم غزہ کے طلبہ اپنے اہل خانہ کے حوالے سے شدید تشویش میں مبتلا ہیں اور ان کی خیریت کی خبر سننے کے لیے بے تاب ہیں۔
غیر ملکی خبر ایجنسی ’اے ایف پی‘ کی رپورٹ کے مطابق مصر میں مقیم طالبہ سجا سامے کا غزہ میں اپنے اہل خانہ سے آخری بار رابطہ اس وقت ہوا جب وہ دیگر ہزاروں متاثرین کے ہمراہ اسرائیلی فضائی حملوں کے خوف سے ایک ہسپتال کے کمپاؤنڈ میں پناہ لیے ہوئے تھے۔
مصر میں زیر تعلیم میڈیکل کی طالب علم 20 سالہ سجا سامے اپنے کمرے میں خاموشی سے مسلسل فون دیکھتی جارہی تھیں کہ شاید ان کو کوئی اپنے اہل خانہ کے زندہ ہونے کی خبر دے۔
خیال رہے کہ 7 اکتوبر کو حماس نے غزہ کی پٹی سے اسرائیل پر ’سرپرائز حملہ‘ کیا تھا جس کے نتیجے میں ایک ہزار 400 اسرائیلی ہلاک ہوگئے تھے، پھر اسرائیل نے غزہ پر بمباری شروع کر دی اور حماس کو مکمل ختم کرنے کا اعلان کیا اور اسی دن سے غزہ پر مسلسل بمباری جاری ہے اور زمینی حملے کے خدشات ہیں جبکہ دنیا نے اسرائیلی جارحیت پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔
سجا سامے نے کہا کہ مجھے کچھ سمجھ نہیں آرہا، مجھے نہیں پتا کہ میرے اہل خانہ کہاں ہیں، مجھے نہیں پتا کہ وہ ٹھیک ہیں یا نہیں۔
انہوں نے افسردہ ہوکر کہا کہ ’میں ہر وقت اپنی والدہ سے بات کرتی ہوں، وہ مجھے بتاتی ہیں کہ انہیں پتا نہیں کہ وہ اس صورت حال سے بچ سکیں گے یا نہیں، اور مجھے اپنا خیال کیسے رکھنا چاہیے، لیکن میں اپنے طور پر کیا کر سکتی ہوں‘۔
مصر کی جامعات میں زیر تعلیم 6 ہزار دیگر طلبہ کی طرح سجا سامے بھی دور سے غزہ میں بمباری دیکھنے پر مجبور ہیں۔
ان میں سے سینکڑوں طلبہ گزشتہ ہفتے امتحان کے لیے بیٹھے تھے جو کہ ٹیسٹ پر توجہ مرکوز کرنے کے لیے تیار تھے اور ان کے خاندان بمشکل 5 گھنٹے کی دوری پر ہیں۔
سجا سامے نے آخری بار اپنی والدہ سے غزہ کے شفا ہسپتال میں بات کی تھی اور کہا کہ انہیں اس بات کا خوف ہے کہ اگر فضائی حملے میں وہ جاں بحق ہوگئے تو بچے خوف سے مر جائیں گے۔
میڈیکل کی طالبہ اپنی 6 سالہ بہن کا سوچ کر نیند پوری نہیں کر پا رہی ہیں جو کہ غزہ کے ہسپتال میں زمین پر پڑی سردی سے کانپ رہی ہیں۔
وہ ہر وقت ہسپتال کے باہر اسرائیلی بمباری کی خبریں دیکھتی ہیں اور شدید تشویش میں مبتلا ہیں کہ ان کے اہل خانہ کس حال میں ہوں گے۔
ایک اور طالبہ 21 سالہ حیا شہاب کو انسٹاگرام کی پوسٹ سے پتا چلا کہ بمباری سے ان کا گھر مکمل طور پر تباہ ہو چکا ہے اور 45 افراد جاں بحق ہوچکے ہیں جن میں سے زیادہ تر ان کے رشتہ دار ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ایسا لگتا ہے کہ ہم میں سے 45 افراد چلے گئے ہیں۔
’یہ وقت بدتر ہے‘
ایک اور طالبہ جابر 6 سال کی تھی جب انہوں نے پہلی بار اپنے گھر کو اسرائیلی فضائی حملوں سے تباہ ہوتے محسوس کیا تھا اور انہیں بموں کی بارش کے بعد زندگی بچانے کے لیے اپنے گھر والوں سے لپٹ جانا یاد ہے۔
جابر نے کہا کہ مجھے پتا ہے کہ یہ سب کیسا ہے لیکن یہ وقت سب سے زیادہ بدتر ہے۔
جابر، سامے اور دیگر طلبہ کی بچپن کی یادیں 2014 میں غزہ میں لگنے والی جنگ سے منسلک ہیں جب اسرائیلی فورسز کے حملے سے تقریباً 2 ہزار 250 شہری جاں بحق ہوگئے تھے۔
سجا سامے کے والد نے تصادم کے باوجود بھی کئی برس اپنے خاندان پر گھر میں رہنے کا زور دیتے ہوئے کہا تھا کہ ’ہمارے پاس اپنا گھر ہی سب کچھ ہے‘۔
لیکن 7 اکتوبر کو اسرائیلی وزیراعظم بینجمن نیتن یاہو کی طرف سے ’طویل اور مشکل‘ جنگ کا اعلان ہونے کے بعد خاندان کو اپنا گھر چھوڑنا پڑا جو کہ کچھ ہی دنوں میں ملبے کا ڈھیر بن گیا۔
سجا سامے نے کہا کہ ہم نے ہمیشہ یہ سوچا کہ اسرائیلی فوج مغربی غزہ پر حملہ نہیں کرے گی لیکن اس جنگ سے ثابت ہوا کہ کوئی بھی کہیں بھی محفوظ نہیں ہے۔
سجا سامے نے کہا کہ ’میں ابھی تک اپنے خاندان سے دور ہونے کی ہمت کیسے پیدا کروں، میں کھانا کیسے کھاؤں جب وہ بھوک میں ہیں۔‘
انہوں نے کہا کہ ’مجھے اس احساس سے نفرت ہے، میں محفوظ ہوں لیکن وہ نہیں، کاش میں ان کے ساتھ ہوتی، میں اس طرح محسوس کرنے کے بجائے ان کے ساتھ رہنا اور ان کے ساتھ مرنا پسند کروں گی۔‘