بحریہ ٹاؤن کراچی کیس: کیا سپریم کورٹ اپنے فیصلوں پر عملدرآمد کیلئے بینچ بنا سکتی ہے، چیف جسٹس
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے بحریہ ٹاؤن کراچی کیس کے حوالے سے سوالات اٹھاتے ہوئے کہا ہے کہ کیا قانون میں عمل درآمد بینچ کا کوئی تصور ہے، کیا سپریم کورٹ کے اپنے ہی فیصلے پر عمل درآمد کے لیے بینچ بنایا جا سکتا ہے۔
چیف جسٹس آف پاکستان قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں جسٹس امین الدین خان اور جسٹس اطہر من اللہ پر مشتمل تین رکنی بینچ نے بحریہ ٹاؤن کراچی کیس میں 7 درخواستوں پر سماعت کی۔
سپریم کورٹ میں بحریہ ٹاؤن کراچی عمل درآمد کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے عمل درآمد بینچز بنانے پر سوالات اٹھا دیے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ کیا قانون میں عمل درآمد بینچ کا کوئی تصور ہے، کیا سپریم کورٹ کے اپنے ہی فیصلے پر عمل درآمد بینچ بنایا جا سکتا ہے؟
سماعت کے دوران چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ کیا سپریم کورٹ کے جج ساتھی ججوں کو اپنے ہی فیصلے پر عمل درآمد کرانے کا حکم دے سکتے ہیں، اگر عمل درآمد بینچ فیصلے پر عمل نہ کرا سکے تو کیا ساتھی ججوں کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی ہوگی؟
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے سوال کیا کہ کیا سپریم کورٹ کا ایک بینچ دوسرے کو حکم دے سکتا ہے؟
انہوں نے استفسار کیا کہ اٹارنی جنرل صاحب، آپ بتائیں کہ کیا عمل درآمد بینچز بنائے جا سکتے ہیں، جو بینچ حکم دیتا ہے وہی اس پر عمل درآمد کیوں نہیں کرا سکتا؟
سپریم کورٹ نے برطانیہ سے آنے والی رقم ادائیگیوں میں ایڈجسٹ کرنے پر بھی سوال اٹھایا۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے استفسار کیا کہ بحریہ ٹاؤن نے جو رقوم جمع کرائیں وہ آئی کہاں سے، کیا یہ درست ہے کہ بیرون ملک ضبط رقم بھی سپریم کورٹ میں جمع کرائی جائے؟
وکیل نے دلائل دیے کہ وہ سب ایک معاہدے سے ہوا، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آپ وہ معاہدہ پیش کریں، تاہم وکیل نے ادائیگیوں کے حوالے سے ہدایات لینے کے لیے وقت مانگ لیا۔
خیال رہے کہ سپریم کورٹ میں کیس کی آخری مرتبہ سماعت 21 مئی 2021 کو ہوئی تھی جہاں بینچ کو بتایا گیا تھا کہ نیا پاکستان ہاؤسنگ اسکیم اسلام آباد اور کراچی میں کم قیمت پر مکانات تعیمر کرنے کے لیے بحریہ ٹاؤن پاکستان کے ساتھ مفاہمت کی یادداشت (ایم او یو) پر دستخط کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔
سپریم کورٹ کے عمل درآمد بینچ کے سامنے یہ معلومات پیش کی گئیں جس کو ملیر (سندھ) میں بحریہ ٹاؤن ڈیولپرز کی زمین کے حصول کے لیے ادائیگی کا شیڈول کے ساتھ منجمد کردیا گیا تھا۔
قبل ازیں سپریم کورٹ کے عمل درآمد بینچ نے ملیر ڈیولپمنٹ اتھارٹی (ایم ڈی اے) میں 16 ہزار ایکڑ زمین کی خریداری کے لیے 21 مارچ 2019 کو ڈیولپرز کی جانب سے 460 ارب روپے کی پیش کش قبول کی تھی لیکن چند شرائط و ضوابط مقرر کیے تھے۔
عدالت نے سپریم کورٹ کے 4 مئی 2018 کے فیصلے پر عمل درآمد کی پیش کش قبول کی جس میں کہا گیا تھا کہ سندھ حکومت کی جانب سے ملیر ڈیولپمنٹ اتھارٹی (ایم ڈی اے) کو زمین کی منظوری، نجی لینڈ ڈیولپرز (بحریہ ٹاؤن) کی زمین کے ساتھ اس کا تبادلہ اور حکومت سندھ کی طرف سے کالونائزیشن آف گورنمنٹ لینڈ ایکٹ 1912 کی دفعات کے تحت جو کچھ بھی کیا گیا وہ غیر قانونی تھا جس کا کوئی قانونی وجود نہیں تھا۔
فیصلے میں اظہار برہمی کرتے ہوئے کہا گیا تھا کہ زمین منافع بخش ہاؤسنگ اسکیم کے لیے دی گئی تھی لیکن ایم ڈی اے نے اس کے بجائے اپنی نجی ہاؤسنگ اسکیم شروع کرنے کے لیے بحریہ ٹاؤن کراچی کے ساتھ اس کا تبادلہ کیا۔
اس سے قبل 16 دسمبر 2020 کو سپریم کورٹ نے کورونا وائرس سے متعلق معاشی کساد بازاری کی وجہ سے 2.5 ارب روپے کی ماہانہ قسط کے لیے بحریہ ٹاؤن کراچی کو 3 سال کی چھوٹ دینے کی درخواست مسترد کردی تھی۔
بحریہ ٹاؤن کراچی نے کورونا وائرس کی وجہ سے کساد بازاری کے پیش نظر سپریم کورٹ سے ادائیگی کا منصوبہ منجمد کرنے کی درخواست کی تھی اور استدعا کی گئی تھی کہ 2.5 ارب روپے کی ماہانہ اقساط کی ادائیگی 7 ستمبر 2020 سے ستمبر 2023 تک تین برسوں تک مؤخر کردی جائے۔
اسی طرح 20 اکتوبر 2020 کو سپریم کورٹ نے بحریہ ٹاؤن کراچی کی طرف سے جمع کرائے گئے فنڈز جاری کرنے کے لیے اعلیٰ کمیشن تشکیل دیا تھا۔