ایئرپورٹ سے مینارِ پاکستان تک کا سفر، نواز شریف کو قانونی چیلنجز درپیش
رواں ماہ 21 اکتوبر کو وطن واپس پہنچنے والے سابق وزیر اعظم نواز شریف کو آئندہ برس جنوری میں عام انتخابات سے قبل اپنی جماعت مسلم لیگ (ن) کی سیاسی مقبولیت بحال کرنے کے لیے انتخابی مہم شروع کرنے سے پہلے کئی قانونی چیلنجز کا سامنا ہونے کا امکان ہے۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق نواز شریف کی قانونی ٹیم کے ایک رکن نے بتایا کہ نواز شریف کو درپیش قانونی پیچیدگیوں سے نمٹنے کے لیے طویل قانونی کارروائی کی ضرورت نہیں ہوگی، ایون فیلڈ کیس میں ان کے شریک ملزمان (مریم نواز شریف اور ان کے شوہر) کو پہلے ہی اسلام آباد ہائی کورٹ کے ڈویژن بینچ نے بری کر دیا ہے۔
لہذا اسلام آباد ہائی کورٹ کو ایون فیلڈ ریفرنس میں نواز شریف کی اپیل کی منظور کرنے میں کوئی وقت نہیں لگے گا کیونکہ نیب مریم نواز اور ان کے شوہر محمد صفدر کے خلاف الزامات ثابت کرنے میں ناکامی رہا ہے، اسلام آباد ہائی کورٹ نے پہلے ہی 2018 میں ایون فیلڈ ریفرنس میں ان کی سزاؤں کو معطل کر دیا تھا۔
وکیل نے مزید کہا کہ اس طرح جب نواز شریف نومبر 2019 میں علاج کے لیے بیرون ملک گئے تو العزیزیہ کیس میں ان کی سزا کے خلاف اپیل پر 60 فیصد کارروائی پہلے ہی مکمل ہو چکی تھی۔
وکیل نے مکمل یقین ظاہر کیا کہ نواز شریف انتخابات کے وقت تک خود کو درپیش تمام قانونی چیلنجز سے آزاد ہو جائیں گے کیونکہ اِن کارروائیوں میں زیادہ وقت نہیں لگے گا۔
انہوں نے مزید کہا کہ اِن مسائل کو حل کرنے اور خاص طور پر الیکشنز ایکٹ میں اِس ترمیم کے بعد کے بعد عام انتخابات میں اُن کی شرکت پر کوئی پابندی نہیں ہوگی، جس کے تحت آرٹیکل 62 (ایف) (ون) کے تحت نااہلی کی مدت تاحیات سے کم کر کے 5 برس کر دی گئی ہے۔
کارروائی اس کے برعکس ہونے کی صورت میں نواز شریف کے دوبارہ جیل جانے کے امکانات کے بارے میں وکیل نے کہا کہ نواز شریف کو طبی بنیادوں پر ضمانت مل سکتی ہے کیونکہ انہیں ابھی بھی طبی مسائل درپیش ہیں۔
رواں ماہ کے آغاز میں نواز شریف کی قانونی ٹیم نے لاہور ہائی کورٹ میں اُن کی میڈیکل رپورٹ جمع کرائی تھی جس میں کہا گیا تھا کہ نواز شریف کو اب بھی دل کے عارضے کے مسائل ہیں جن کے لیے انہیں پاکستان میں اور بیرون ملک علاج کی ضرورت رہے گی۔
تاہم ایڈووکیٹ خرم چغتائی نے کہا کہ سابق وزیر اعظم کو درپیش قانونی چیلنجز کچھ زیادہ ہی پیچیدہ ہیں، مثلاً ان کے کیسز پر قانونی کارروائی جنوری 2024، یعنی انتخابات کے مہینے سے آگے تک جا سکتی ہے۔
نواز شریف کی پاکستان آمد کے بارے میں بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ نواز شریف کو براہ راست عدالت یا ایئرپورٹ پر مجاز پولیس اہلکار کے پاس ضمانت جمع کراتے ہوئے قانون کے سامنے سرینڈر کرنا ہوگا۔
وکیل نے کہا کہ اگر نواز شریف فوری طور پر سرینڈر کرنا چاہتے ہیں توانہیں طیارہ لینڈ کرنے سے قبل لاہور یا اسلام آباد کی ہائی کورٹ سے حفاظتی ضمانت حاصل کرنی ہوگی۔
وکیل نے مزید کہا کہ وارنٹ واپس لینے اور نیب ریفرنسز میں سزا کے خلاف ان کی اپیلوں کو بحال کرنے کے بعد اسلام آباد ہائی کورٹ کی جانب سے نواز شریف کی گرفتاری ختم کی جا سکتی ہے لیکن یہ ایک غیر معمولی ریلیف ہوگا جو عام طور پر صرف سیاستدانوں کو دیا جاتا ہے۔
ان قانونی چیلنجوں کے باوجود نواز شریف کو مینار پاکستان پر جلسے سے خطاب کرکے اپنے کارکنوں کو ثابت کرنا ہو گا کہ وہ قوت حاصل کر چکے ہیں۔
پلڈاٹ کے سربراہ احمد بلال محبوب نے کہا کہ اگر نواز شریف ایئرپورٹ سے سیدھے جیل چلے گئے تو پارٹی کارکن اپنے لیڈر کو کمزور سمجھیں گے، حفاظتی ضمانت پر رہتے ہوئے جلسے سے خطاب کرنے سے سیاسی طور پر کوئی سخت ردعمل آنے کا امکان نہیں ہے۔
لاہور ہائی کورٹ نے 2019 میں علاج کے لیے برطانیہ جانے کے لیے چوہدری شوگر ملز کیس میں نواز شریف کی ضمانت منظور کی تھی جبکہ اسلام آباد ہائی کورٹ نے العزیزیہ کیس میں ان کی سزا 8 ہفتوں کے لیے معطل کر دی تھی، تاہم اِس کیس میں عدالت نے کہا تھا کہ ضمانت میں توسیع کے لیے حکومتِ پنجاب سے رجوع کیا جائے۔
نواز شریف کو وطن واپس نہ آنے اور نیب کی سزاؤں کے خلاف اپیلوں کا حصہ نہ بننے کی وجہ سے اسلام آباد ہائی کورٹ نے 2020 میں انہیں اشتہاری مجرم قرار دیا تھا۔
اسلام آباد کی احتساب عدالت نے توشہ خانہ کیس میں انہیں مفرور قرار دیتے ہوئے ان کے اثاثے ضبط کرنے کا حکم دیا تھا۔