’ٹریچر کولنز سنڈروم‘ کا شکار وہاج اور اس کی باہمت والدہ کی کہانی
تہمینہ ذیشان نے 28 اگست 2021ء کو کراچی کے نواحی علاقے گلشن حدید میں واقع ایک اسپتال میں اپنے بیٹے کو جنم دیا، یہ ان کا چوتھا بچہ تھا۔ جب انہوں نے اپنے بیٹے محمد وہاج کو پہلی بار دیکھا تو انہیں محسوس ہوا کہ بچے کا چہرہ عام بچوں سے مختلف تھا۔
لیکن وہ چہرے کے بجائے بچے کی خیریت کے حوالے سے زیادہ فکر مند تھیں۔ وہاج جب پہلی بار رویا تو انہیں کچھ سکون ملا لیکن نرسنگ اسٹاف کے چہروں کے تاثرات بتا رہے تھے کہ کچھ ٹھیک نہیں ہے۔
تشخیص کا عمل
بچے کے ابتدائی معائنے کے بعد ڈاکٹر اس کی حالت سمجھنے سے قاصر تھے اور انہوں نے بچے کے گھر والوں سے اسے نوزائیدہ بچوں کے انتہائی نگہداشت یونٹ (این آئی سی یو) میں منتقل کرنے کو کہا۔ جب اہل خانہ نے وجہ پوچھی تو ڈاکٹرز نے بتایا کہ ان کا بچہ غیر معمولی اور ’عجیب‘ نظر آرہا ہے اور وہ اس کی ’خصوصی‘ ضروریات پوری نہیں کرسکتے کیونکہ ان کے پاس سہولیات کا فقدان ہے۔
وہ یہ وضاحت کرنے میں بھی ناکام رہے کہ بچے کو کس نوعیت کی طبی امداد کی ضرورت ہے۔ حمل کے دوران تہمینہ کو اینومولی اسکین کروانے کے لیے نہیں کہا گیا تھا، اس لیے وہ اپنے بیٹے کی حالت سے بالکل بےخبر تھیں۔
بیٹے کی پیدائش کے بعد اسپتال نے تہمینہ کو گھر واپس بھیج دیا لیکن ان کے شوہر ذیشان احمد وہاج کو اس کا مکمل چیک اپ کروانے لے گئے اور اسپتال کے مشورے کے مطابق اسے این آئی سی یو میں داخل کروانا چاہتے تھے۔ کراچی کے معروف اسپتالوں میں سے ایک نے یہ کہتے ہوئے بچے کو داخل کرنے سے انکار کردیا کہ ان کے پاس این آئی سی یو میں جگہ نہیں ہے اور اگر ہے بھی تو یہ ان بچوں کے لیے مختص ہے جو وہاں پیدا ہوئے ہیں۔
وہ اسپتال کے انکار سے دلبرداشتہ اور اپنے بچے کی خیریت کے حوالے سے پریشان تھے۔ ذیشان احمد نے وہاج کو اسٹیڈیم روڈ پر واقع ایک اور معروف اسپتال لے جانے کا فیصلہ کیا لیکن وہاں بھی بچے کو داخل کرنے سے انکار کردیا گیا۔ جب وہ اسپتال کے احاطے سے نکل رہے تھے تب دالان میں ایک ڈاکٹر نے انہیں وہاج کو دیکھنے کے لیے روکا اور پوچھا کہ کیا اس کے میڈیکل طلبہ بھی اس بچے کو دیکھ سکتے ہیں۔ ذیشان نے حامی بھرلی۔
نوجوان طلبہ آئے اور وہ وہاج کو دیکھنے کے لیے کافی پرجوش تھے۔ اپنے استاد کے ساتھ انہوں نے ’ٹریچر کولنز سنڈروم‘ (ٹی سی ایس) کے بارے میں ایسی اصطلاحات میں بحث کیں جو ایک عام آدمی اور ایک پریشان والد کے لیے سمجھنا کافی مشکل تھا۔ بدقسمتی سے ان میں سے کسی نے بھی زحمت نہیں کی کہ پریشان باپ کو بچے کی حالت کے بارے میں مشورہ دیں۔
اپنے بھوکے نوزائیدہ بچے کو گود میں اٹھائے ذیشان گھر پہنچے اور اپنی اہلیہ کو بتایا کہ بچہ ٹھیک ہے کیونکہ وہ سانس لے رہا ہے اور دودھ پی رہا ہے۔ تاہم صدمے نے ذیشان کی یادداشت پر اثر ڈالا اور انہیں یاد ہی نہیں آیا کہ اسپتال میں استاد اور طلبہ کس ’سنڈروم‘ کے بارے میں بات کررہے تھے۔
یہی وہ لمحہ تھا جب تہمینہ نے اپنے بیٹے کی درست تشخیص کا عمل شروع کیا۔
انہوں نے انٹرنیٹ پر مختلف سنڈرومز تلاش کرنا شروع کیے جن کے بارے میں انہوں نے سنا تھا اور جن کی علامات اور جسمانی شکل کو اپنے بیٹے سے مماثل پاتی تھیں جبکہ ساتھ ہی وہ دل میں دعا کرتی تھی کہ ان کے بچے کو یہ بیماری نہ ہو۔ انہوں نے ڈاؤن سنڈروم، دماغی فالج اور یہاں تک کہ ہچنسن-گلفورڈ سنڈروم کے بارے میں بھی تحقیق کی۔
اپنی تحقیق کے ساتھ ساتھ تہمینہ نے اپنے بیٹے کی حالت کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کے لیے قریبی اسپتالوں اور کلینکس کا دورہ بھی جاری رکھا۔ ڈاکٹروں میں سے ایک نے وہاج کی حالت کی غلط تشخیص کی اور والدہ کو بتایا کہ اسے پروجیریا ہے جو اعضا کی خرابی اور موت کا باعث بنتا ہے۔
درست وقت پر صحیح تشخیص بچے کی تندرستی کے لیے بہت ضروری ہے کیونکہ یہ صحت کے مسئلے کی وضاحت فراہم کرتی ہے اور اس سے والدین کو فیصلے کرنے میں مدد ملتی ہے۔ اتنی چھوٹی عمر میں اپنے بچے کی موت کا امکان سن کر تہمینہ بلک بلک کر روئیں۔ وہ اپنے بچے کو کھونے کے لیے بالکل بھی تیار نہیں تھیں۔
چونکہ ان کی فیملی حال ہی میں گلشن حدید منتقل ہوئی تھی اس لیے وہ علاج کے لیے بار بار اندرون کراچی جانے کے اخراجات نہیں اٹھا سکتی تھی۔ یوں انہوں نے اسلام آباد جانے کا فیصلہ کیا کیونکہ وہاں ان کے رشتہ دار رہتے تھے اور اس وجہ سے انہیں فیملی سپورٹ حاصل تھی۔ چنانچہ جب وہاج 40 دن کا تھا تو اس کے گھر والوں نے اپنا سامان باندھا اور صحیح تشخیص کے لیے اسلام آباد روانہ ہوگئے۔
ٹریچر کولنز سنڈروم کیا ہے؟
آخرکار اسلام آباد کے شفا انٹرنیشنل اسپتال میں تشخیص ہوئی کہ وہاج کو ٹریچر کولنز سنڈروم (ٹی سی ایس) ہے جو دنیا میں ہر 50 ہزار بچوں میں سے ایک کو متاثر کرتا ہے۔
اس سنڈروم کا نام برطانوی سرجن اور ماہر امراض چشم ایڈورڈ ٹریچر کولنز کے نام پر رکھا گیا ہے جنہوں نے اس سنڈروم کو ایک جینیاتی حالت قرار دیا تھا۔ یہ سنڈروم چہرے کی ہڈیوں اور ٹشوز کی نشوونما اور کسی شخص کے کان، آنکھوں، گال کی ہڈیوں اور جبڑوں کی شکل یا سائز کو متاثر کرتا ہے۔
ٹی سی ایس کی مختلف اقسام میں بچے کی خوراک، سانس لینے یا سننے کی صلاحیتیں متاثر ہوتی ہیں۔ ٹی سی ایس کے ساتھ پیدا ہونے والے زیادہ تر بچوں کو زندگی بھر نگہداشت کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس سنڈروم کی علامات ہلکی یا بہت شدید بھی ہوسکتی ہیں۔
تہمینہ پہلی بار اس سنڈروم کے بارے میں سن رہی تھیں۔ وہ کہتی ہیں کہ ’مجھے اس کا درست تلفظ کرنے میں بھی کچھ وقت لگا‘۔ ان کے پاس بہت سوالات تھے جنہیں ڈاکٹر نے تحمل سے سنا اور جواب دیا۔
پہلی چیز جو انہوں نے پوچھی وہ یہ تھی کہ کیا یہ جان لیوا عارضہ ہے اور اگر ہے تو وہاج کی متوقع زندگی کے بارے میں سوال کیا۔ ڈاکٹر نے انہیں بتایا کہ بچے کی عمر عام بچوں جیسی ہوتی ہے جبکہ ٹی سی ایس متاثرین کو کئی پیچیدگیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ڈاکٹر نے یہ بھی بتایا کہ ان کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے کون سے علاج دستیاب ہیں۔ ڈاکٹر نے انہیں دنیا بھر سے ٹی سی ایس کے کئی کیسز دکھائے اور بتایا کہ ہر کیس دوسرے سے بہت مختلف ہوتا ہے۔
تہمینہ کہتی ہیں کہ ’میں نے اس حوالے سے جو بھی پیچیدگیاں اور کیسز دیکھے اس کے بعد میں نے اللہ کا شکر ادا کیا کہ میرا بیٹا اس سنڈروم سے شدید متاثر نہیں ہوا۔ وہاج نے بے شک مشکلات کا سامنا کیا ہے لیکن مجھے یقین ہے کہ وہ اس سنڈروم سے زیادہ متاثر ہونے والے دیگر بچوں کی مشکلات سے کم ہی ہوں گی‘۔
تہمینہ اب وہاج کی ممکنہ ذہنی صلاحیت کے بارے میں جاننا چاہتی تھیں۔ انہوں نے ڈاکٹر کو بتایا کہ وہ چاہتی ہیں کہ ان کے بچے حافظ بنیں اور پوچھا کہ کیا وہاج قرآن حفظ کر سکے گا۔
ڈاکٹر نے جواب دینے کے بجائے ان سے پوچھا کہ اگر وہاج صرف نماز پڑھ سکے تو آپ کیسا محسوس کریں گی؟ انہوں نے وضاحت کی کہ ٹی سی ایس سے متاثرہ ہر فرد کی مختلف ضروریات اور صلاحیتیں ہوتی ہیں۔ اگر صحیح طبی اور اخلاقی مدد کی جائے تو وہ جو چاہیں کر سکتے ہیں۔ ڈاکٹر نے بتایا کہ ان کی ملاقات ایک ایسے ڈاکٹر سے بھی ہوچکی ہے جنہیں ٹی سی ایس تھا۔
’یہ وہی بات تھی جو میں سننے کے لیے ترس رہی تھی‘ وہ دن یاد کرکے تہمینہ کی آنکھیں بھر آئیں۔ وہ جاننا چاہتی تھیں کہ وہاج کے لیے امید ہے یا نہیں اور ڈاکٹر نے انہیں یقین دلایا کہ یقیناً امید ہے۔
ٹی سی ایس کے حوالے سے آگاہی فراہم کرنے کا مشن
تشخیص کے اگلے ہی دن سے تہمینہ نے اس حالت کے حوالے سے آگاہی پھیلانے کے مشن کا آغاز کردیا۔ انہوں نے پاکستان میں ٹریچر کولنز سنڈروم کے لیے سپورٹ گروپس اور اسی حالت میں مبتلا افراد کو تلاش کرنے کے لیے سوشل میڈیا کا استعمال کیا لیکن انہیں کچھ مل نہیں سکا۔
لہٰذا انہوں نے بین الاقوامی سپورٹ گروپس میں شمولیت اختیار کی۔ دنیا بھر کے لوگوں سے اس سنڈروم اور اس کی مختلف علامات کے بارے میں سیکھا، نئے دوست بنائے اور یہاں تک کہ بیرون ملک لوگوں سے بطور تحفہ بون اینکرڈ ہیئرنگ ایڈ (بی او ایچ اے) حاصل کی۔ وہ کہتی ہیں کہ میں نے سوشل میڈیا کے ذریعے پاکستان میں ٹی سی ایس کے تین متاثرین کو بھی ڈھونڈا۔
تہمینہ نے یہ بھی سیکھا کہ دنیا بھر میں صحت کی دیکھ بھال کے دوسرے نظام کتنے مضبوط اور معاون ہیں اور وہ مختلف ضروریات کے حامل شہریوں کی کتنی اچھی دیکھ بھال کرتے ہیں۔ وہ بتاتی ہیں کہ ’میری ایک دوست ناروے میں رہتی ہے اس نے وہاج کو گود لینے کی پیشکش بھی کی کیونکہ وہ جانتی تھی کہ وہاں کا نظامِ صحت ٹی سی ایس کا شکار ایک بچے کے لیے کس طرح معاون ثابت ہوسکتا ہے‘۔
تہمینہ کا اگلا قدم ٹی سی ایس کے بارے میں لوگوں کو آگاہ کرنا اور اس جینیاتی عارضے کے بارے میں بیداری پیدا کرنا تھا۔ اس مقصد کے لیے انہوں نے اپریل 2022ء میں یوٹیوب چینل، فیس بک پیج اور ایک ٹک ٹاک پروفائل بنائی جہاں وہ وہاج کی روزمرہ کی سرگرمیوں کو شیئر کرتی ہیں۔
وہ کہتی ہیں کہ ’میرے پاس صرف دو ہی راستے تھے، یا تو لوگوں کی باتوں کے خوف سے وہاج کو دنیا سے چھپا لوں یا بے خوف ہوکر اسے اس بیماری سے لڑنے والے کی طرح پیش کروں اور اسے ایسے پالوں کہ وہ ایک بااعتماد بچہ بنے۔ میں نے دوسرے راستے کا انتخاب کیا اور میں اپنے فیصلے سے خوش ہوں‘۔
وہاج کی پیدائش کے بعد سے ہی محبت اور ان کی حمایت کرنے پر تہمینہ اپنے خاندان اور سسرال والوں کی شکر گزار ہیں۔ وہ بتاتی ہیں کہ ’ایک بار بھی کسی نے وہاج کے خلاف کچھ نہیں کہا۔ سب اس سے بےحد پیار کرتے ہیں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ آج میں چٹان کی طرح کھڑی ہوں‘۔
تاہم، وہ کبھی کبھار لوگوں کے نفرت انگیز تبصروں کا بھی سامنا کرتی ہیں۔ ان کے سوشل میڈیا پر ایک کمنٹ میں ان کے بیٹے کو ان کی غلطیوں کی سزا قرار دیا گیا جس کا انہوں نے سخت جواب دیا۔ وہ کہتی ہیں کہ ’میں تمام سوالات اور تبصروں کا جواب اعتماد کے ساتھ دیتی ہوں۔ میں اس چیز پر کیوں شرمندہ ہوں جو اللہ نے بنائی ہے اور میرے اختیار سے باہر ہے؟‘
تہمینہ چاہتی ہیں کہ وہاج ایک پُراعتماد، ہمدرد، خودمختار اور بہترین انسان بنے۔ وہ منفرد خصوصیات کے حامل بچوں کی ماؤں سے اپیل کرتی ہے کہ وہ سماجی دباؤ، آرا اور تبصروں کے سامنے ہر گز سر نہ جھکائیں اور اپنے حوصلے بلند رکھیں۔ وہ ان ماؤں کو پیغام دیتی ہیں کہ ’آپ یہ کرسکتی ہیں‘۔
6 افراد پر مشتمل یہ کنبہ وہاج کو ’خصوصی‘ بچہ نہیں مانتا بلکہ وہ اسے اپنا ’قیمتی‘ بچہ کہتے ہیں جو سب کی آنکھوں کا تارا ہے۔
یہ مضمون یکم اکتوبر 2023ء کو ڈان کے ای او ایس میگزین میں شائع ہوا۔