کیا افغان شہریوں کو ملک بدر کرنا بین الاقوامی قوانین کے تحت درست فیصلہ ہے؟
4 دہائیوں قبل افغان پناہ گزینوں کی بڑی تعداد پاکستان آئی اور تب سے پاکستان ہر ممکن طریقے سے ایک قابلِ تعریف میزبان کا کردار ادا کررہا ہے۔ تاہم اس بارے میں مزید بات کرنے سے پہلے ہمارے لیے یہ جائزہ لینا مناسب رہے گا کہ کیا پاکستان میں پناہ لینے والے افغان شہری واقعی ’پناہ گزین‘ کے بین الاقوامی قوانین کے دائرہ کار میں آتے ہیں اور کیا انہیں ان قوانین کے تحت تحفظ کا حق حاصل ہے؟ اس سوال کا جواب براہِ راست طور پر لاکھوں افغان مہاجرین کے لیے پاکستان کی ذمہ داریوں سے منسلک ہے۔
مہاجرین کی حیثیت سے متعلق 1951ء کے کنونشن اور 1967ء کے ضابطوں کی دستاویز بین الاقوامی قوانین کے تحت اہم سمجھی جاتی ہیں کیونکہ اس میں پناہ گزینوں کے حقوق اور فرائض کو بیان کیا گیا ہے جبکہ اسی میں لفظ ’پناہ گزین‘ کی بین الاقوامی سطح پر تسلیم کی جانے والی تعریف بھی بیان کی گئی ہے۔ پاکستان نے اس کنونشن کی توثیق تو نہیں کی لیکن اس کنونشن کے کچھ نکات ایسے ہیں جو رسمی بین الاقوامی قوانین کے زمرے میں آتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ یہ ان ممالک پر بھی لاگو ہوتے ہیں جوکہ اس کنونشن کا حصہ نہیں۔ اسی تناظر میں ہم کنونشن کے کچھ متعلقہ نکات پر نظر ڈالتے ہیں۔
اس کنونشن کا پہلا آرٹیکل پناہ گزین کی تعریف کچھ یوں بیان کرتا ہے ’قومیت، نسل، مذہب، کسی مخصوص سماجی گروہ سے وابستگی یا سیاسی رائے رکھنے پر ستائے جانے کے خوف کی وجہ سے ملک چھوڑنے والے۔ اسی خوف کی وجہ سے قومیت رکھنے کے باوجود وہ اپنے ملک میں خود کو غیرمحفوظ سمجھتے ہوں‘۔
اس کنونشن کا اہم ترین حصہ پناہ گزینوں کی واپسی سے متعلق ہے جوکہ کنونشن کے آرٹیکل 33 میں درج ہے۔ آرٹیکل 33 کی پہلی شق ہمیں بتاتی ہے کہ ’اس کنونشن میں شامل کوئی بھی ریاست پناہ گزینوں کو ان علاقوں کی سرحدوں میں واپس نہیں بھیجے گی جہاں قومیت، نسل، مذہب، کسی مخصوص سماجی گروہ سے وابستگی یا سیاسی رائے رکھنے پر ان کی جان یا آزادی کو خطرات لاحق ہوں‘۔
افغانستان میں سیکیورٹی کی صورتحال اب قدرے بہتر ہے اور کچھ حقائق کی بنیاد پر ہم یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ پاکستان میں مقیم افغان شہریوں کو اپنے ملک واپسی پر ظلم و ستم کا کوئی ’سنگین‘ یا ’قابل اعتبار‘ خطرہ نہیں ہے۔ ہم مئی، جون اور ستمبر 2023ء میں اقوام متحدہ کے انٹر ریجنل کرائم اینڈ جسٹس ریسرچ انسٹیٹیوٹ کی جانب سے جاری کردہ تین رپورٹس، جون 2023ء میں جاری کردہ اقوامِ متحدہ کی سیکیورٹی کونسل کی ماہانہ فارکاسٹ اور افغانستان کی صورتحال پر اقوامِ متحدہ کے سیکرٹری جنرل یا جنرل اسمبلی کی رپورٹ کا بھی حوالہ دے سکتے ہیں۔
یہ تفصیلی رپورٹس مجموعی طور پر یہ ظاہر کرتی ہیں کہ پاکستان میں رہنے والے افغان پناہ گزین اب بحفاظت اپنے ملک واپس جاسکتے ہیں کیونکہ کنونشن کے پہلے آرٹیکل کے تحت اب وہ اپنے ملک میں محفوظ ہیں۔
اس حوالے سے یہ نقطہ بھی اٹھایا جاسکتا ہے کہ پناہ گزینوں کو واپس نہ بھیجنے کے ضابطے کی بنیاد صرف 1951ء کا کنونشن ہی نہیں بلکہ دیگر متعدد ضابطے پناہ گزینوں کو 1951ء کے تحت ملنے والے تحفظ سے زیادہ وسیع تحفظ فراہم کرتے ہیں۔
تاہم 2001ء میں امریکا پر ہونے والے دہشتگردی کے حملے کے بعد، ممالک کی بڑی تعداد نے ’قومی سلامتی‘ کے نام پر کنونشن میں شامل پناہ گزینوں کو واپس نہ بھیجنے کے اصول سے متعلق مختلف تبدیلیاں کیں۔ آسٹریلیا کی مثال بھی ہمارے سامنے ہے جس نے 2004ء میں قانون سازی کے ذریعے ہزاروں غیرقانونی تارکینِ وطن کو واپس نہ بھیجنے کے اصول کو غیرموثر کردیا تھا۔
دیکھا جائے تو پاکستان اپنی قومی سلامتی، اقتصادی اور سیاسی بحرانوں کی وجہ سے کسی بھی صورت میں لاکھوں پناہ گزینوں کو پناہ دینے کی حالت میں نہیں جبکہ یہ پناہ گزین وہ ہیں جو افغانستان میں حالات بہتر ہونے کی وجہ سے بین الاقوامی قانون کے مطابق تحفظ اور قومی حیثیت کے حقدار بھی نہیں رہے۔
افغان حکومت 1964ء کے آئین (آرٹیکل 26، پیراگراف 1، 2، 10 اور 16، آرٹیکل 31، 32، 33، 34، 37) کے تحت ظلم کے خلاف تحفظ فراہم کرنے کی ذمہ دار ہے۔ اسی سلسلے میں ستمبر 2021ء میں طالبان کے قائم مقام وزیرِ انصاف عبدالحکیم شرعی کے ایک بیان کا حوالہ دیا جا سکتا ہے جس میں عبدالحکیم شرعی نے واضح طور پر کہا تھا کہ امورِ مملکت چلانے کے لیے 1964ء کے افغان آئین سے رہنمائی حاصل کی جائے گی۔
ایک دفعہ جب پاکستان میں افغان شہریت رکھنے والے لوگوں سے پناہ گزین ہونے کی حیثیت واپس لے لی جائے گی تو یہ تارکینِ وطن کہلائے جائیں گے جن کے پاس پاکستان میں رہنے کا کوئی قانونی جواز باقی نہیں رہے گا۔
’تارکین وطن‘ اس زمرے میں آتے ہیں جو اکثر اوقات روزگار کے سلسلے میں غیرقانونی طور پر بین الاقوامی سرحدوں کو عبور کرتے ہیں۔ ان کی حیثیت، نقل و حمل اور روک تھام، سب تارکینِ وطن کی عالمی تنظیم کے ماتحت ہے۔ یہ تنظیم باہمی انتظامات سے غیرقانونی تارکینِ وطن کو واپسی کی سہولیات بھی فراہم کرتی ہے۔
جب تارکین وطن کو واپس بھیجنے اور انہیں قبول کرنے والے ممالک کے درمیان کوئی تیسری ریاست موجود ہو تو ایسے میں یہ تنظیم مداخلت کرتی ہے۔ لیکن ایسے ممالک جن کی سرحدیں آپس میں ملتی ہوں، وہاں غیرقانونی تارکینِ وطن کی واپسی کا سلسلہ وہ ملک شروع کرتا ہے جس نے انہیں پناہ گزین کے طور پر پہلے قبول کیا ہوتا ہے جوکہ اس وقت پاکستان ہے۔ یہ امر خوش آئند ہے کہ افغانستان ان خاندانوں کی واپسی کو قبول کررہا ہے جوکہ الٹی میٹم کے باعث پاکستان چھوڑ رہے ہیں۔
البتہ 31 اکتوبر تک تمام غیررجسٹرڈ افغان شہریوں کو ملک سے ڈی پورٹ کرنے کا حالیہ فیصلہ ابھی غیررجسٹرڈ افراد تک ہی محدود ہے۔ تاہم افغان آبادی کے مختلف درجوں سے نمٹنے کے دوران صورتحال کی باریکیوں کو دھیان میں رکھنا ضروری ہوگا جن کی پاکستان کی سرزمین پر موجودگی کسی قسم کے انتظامی فریم ورک کے تحت ریگولیٹ ہورہی ہو۔
پاکستان میں چار اقسام کے افغان شہری مقیم ہیں؛
- ایک وہ جو پاکستان میں پیدا ہوئے اور یہیں پلے بڑھے۔
- دوسرے وہ لوگ جو رجسٹرڈ ہیں اور ان کے پاس رجسٹریشن کے ثبوت ہیں۔
- تیسرے وہ لوگ جنہیں حکومت پاکستان نے افغان شہری کارڈ دیا۔
- جبکہ چوتھے وہ جو 2021ء میں افغان طالبان کے افغانستان پر قبضے کے بعد پاکستان میں داخل ہوئے تھے۔
پاکستان میں پیدا ہونے والے افغان شہریوں کے ساتھ مختلف سلوک کرنے کی ضرورت ہے اور ان کے لیے مخصوص شہریت کے حقوق پر بھی غور کیا جاسکتا ہے۔ چونکہ مختلف اقسام کے یہ افغان شہری پورے پاکستان میں صوبائی سطح پر بکھرے ہوئے ہیں اس لیے حکام کی جانب سے ہر قسم کے شہریوں کے لیے مختلف پالیسیاں بنانے کی ضرورت ہے۔
یہ مضمون 13 اکتوبر 2023ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔