برمامیں مسلم کشی ہوئی ہے، ہیومن رائٹس واچ
بینگ کاک: بدھ کے روز انسانی حقوق کی ایک تنظیم کی جانب سے جاری کردہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ میانمار میں سیکیوریٹی فورسزنے جون کے آغاز میں مسلمان اکثریت روہنگیا گروہ کے قتل، آبروریزی اور بڑے پیمانے پر گرفتاریاں کی تھیں۔ رپورٹ کے مطابق اداروں نے اس عمل کو روکنے میں بے حد معمولی کردار ادا کیا تھا۔
نیویارک سے وابستہ ہیومن رائٹس واچ نامی تنظیم نے اپنی رپورٹ میں یہ بھی کہا ہے کہ مسلمانوں کی مدد کرنےوالے کارکنوں کو نہ صرف روکا گیا بلکہ بعض مقامات پر انہیں گرفتار بھی کیا گیا۔ راکھنی اسٹیٹ میں راکھنی بدھ مت اور روہنگیا کے درمیان فسادات کے بعد حکومت نے کریک ڈاون شروع کیا توکارروائی کا نشانہ بھی مسلمانوں کو ہی بنایا گیا۔
راکھنی اور روہنگیا برادریوں سے کئےگئے ستاون انٹرویوز کے بعد اس رپورٹ کے ذریعے نسلی عداوت کی گہری جڑوں کو سمجھنے کی کوشش کی گئی ہے اور عشروں کی فوجی حکومت کے بعد دوہزار گیارہ میں قائم ہونے والی سویلین حکومت کی جانب سے عوام کے جان ومال کے تحفظ کےوعدوں کا جائزہ بھی لیا گیا ہے۔
ہیومن رائٹس واچ کے ایشیا کے ڈائریکٹربریڈ ایڈمس نے کہا کہ برما کی سیکیوریٹی فورسز نے راکھنی اوررہونگیا کے تصادم کو روکنے کے لئے کچھ نہیں کیا اور بعد ازاں رہونگیا کے خلاف تشدد شروع کردیا۔
انہوں نے مزید کہا کہ حکومت دعویٰ کرتی ہے کہ وہ نسلی منافرت اور تشدد کے خاتمے میں سنجیدہ ہے لیکن اراکان ریاست میں ہونے والے حالیہ واقعات سے ظاہرہوتا ہے کہ ریاست کی جانب سے ناانصافی، تفریق اورتشدد کا سلسلہ جاری ہے۔
دوسری جانب میانمار کے وزیرِخارجہ وونا ماونگ لیون نے پیر کو کہا کہ ادارے امن و امان کی بحالی کے لئے ہرممکن کوشش کررہے ہیں تاکہ مذہبی بنیادوں پر فسادات اور تششد کا راستہ روکا جاسکے۔
انہوں نے معاملے کو مذہبی رنگ دینے کی سیاسی کوششوں کو بھی مسترد کردیااورکہا کہ حکومت مختلف قومیتوں کے درمیان ہم آہنگی قائم کرنا چاہتی ہے۔
امریکہ اور یورپی یونین جو میانمار حکومت کو انتشارپر قابو پانے پر تعریف کررہی ہیں پر ایڈم نے دبے لفظوں میں تنقید کرتے ہوئے کہا کہ بین الاقوامی برادری میانمارمیں ہونے والی تبدیلیوں کے سحرمیں گرفتارہیں۔
سابقہ برما اور موجودہ میانمار میں بہت سے مذاہب اور نسلوں تعلق رکھنے والے لوگ بستے ہیں تاہم حکومت کی جانب سے رونگیا مسلمان کسی گنتی میں شمار نہیں ہوتے جن کی تعداد لگ بھگ آٹھ لاکھ ہے۔ بنگلہ دیش نے بھی انہیں پناہ دینے سے انکار کردیا ہے۔
ہیومن رائٹس واچ کے مطابق پولیس اورنیم فوجی دستوں نے اس وقت کسی قسم کی مداخلت نہیں کی جب فسادات میں ہجوم نے مسلمانوں کو مارا۔ یہ بھی کہا جارہا ہے کہ جب جلاو گھراو کے بعد مسلمانوں نے فرار ہونے کی کوشش کی تو نیم فوجی دستوں نے ان پر گولیاں برسائیں۔












لائیو ٹی وی