میں چاہتا ہوں ملک کا ہر سیاستدان جیل سے باہر ہو، مولانا فضل الرحمٰن

شائع October 7, 2023
جمعیت علمائے اسلام(ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن پشاور میں کنونشن سے خطاب کررہے ہیں— فوٹو: ڈان نیوز
جمعیت علمائے اسلام(ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن پشاور میں کنونشن سے خطاب کررہے ہیں— فوٹو: ڈان نیوز

جمعیت علمائے اسلام(ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ میں الیکشن ملتوی نہیں کررہا بلکہ غلط فیصلوں کی نشاندہی کررہا ہوں، میں چاہتا ہوں کہ ملک کا ہر سیاستدان جیل سے باہر ہو لیکن اگر قانون کے گھیرے میں آیا ہے تو قانون تو قانون ہوتا ہے تو اس سے نہ میں مستثنیٰ ہوں، نہ آپ مستثنیٰ ہیں۔

پشاور میں کنونشن سے خطاب کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ پاکستان اس وقت داخلی مشکلات کے ساتھ ساتھ بیرونی خطرات سے بھی دوچار ہے، من حیث القوم ہمیں اپنے وطن کے لیے سوچنا پڑے گا، معاملات وقت کے ساتھ ساتھ گمبھیر ہوتے جا رہے ہیں اور یہ قومی مسئلہ ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہم نے اگر 10 سے 12سال پہلے نشاندہی کی تو یہ کسی کے ساتھ ہماری ذاتی جنگ نہیں دی تھی، ہم نے کسی کو گالی نہیں دی، اگر ہماری نظر میں ایک ایسا عنصر ہماری سیاست میں داخل ہوا جس نے دنیا کی یہودیت سے ہدایات لیں تو اس کو طشت ازبام کرنا ہماری تاریخ کا حصہ ہے، یہ ہم نے پہلے بھی کیا ہے اور آئندہ بھی کریں گے، ہم اس کو گرایا ہے اور ہم نے اسرائیلی کے ایجنڈے، مغرب کے ایجنڈے اور امریکی ایجنڈے کو بھی شکست دی ہے اور پاکستان میں ان کے وفادار اور ان کے ایجنٹوں کو بھی شکست دی۔

انہوں نے کہا کہ میں چاہتا ہوں کہ ہر سیاستدان جیل سے باہر ہو لیکن اگر قانون کے گھیرے میں آیا ہے تو قانون تو قانون ہوتا ہے تو اس سے نہ میں مستثنیٰ ہوں، نہ آپ مستثنیٰ ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ٹرمپ کے حامیوں نے ’ہل پارک‘ (کیپیٹل ہل) پر حملہ کیا تو تمام لوگوں کو جیلیں ہوئیں، بعض کو پھانسی کی بھی سزا دی گئی تو اگر امریکا کے لیے اپنا ریاستی مرکز اتنا تقدس رکھتا ہے تو پاکستان کے بھی ریاستی ادارے ہیں۔

جمعیت علمائے اسلام(ف) کے سربراہ نے کہا کہ اختلاف تو ہم نے بھی کیے، ہم سے بڑے جلسے کس نے کیے ہیں، ہم سے بڑے ملین مارچ کس نے کیے ہیں، کیا ہمیں پتا نہیں تھا کہ ہماری اسٹیبلشمنٹ کی قیادت اس جرم میں شریک تھی، ہمیں پورا ادراک تھا لیکن ہم نے افراد کے اختلاف کو نہیں دیکھا بلکہ اداروں کے احترام کو دیکھا، اپنی حدود کو سمجھنا چاہیے، ہم اپنی حدود کو بھی سمجھتے ہیں اور قانون کی حدود کو بھی سمجھتے ہیں۔

انہوں نے کہاکہ ملک کا مجموعی انتظامی ڈھانچہ اس وقت زوال پذیر ہے، اسٹیبلشمنٹ ہو یا بیورو کریسی، اس کی گرفت کمزور ہے، ملک کے چاروں صوبوں کے اندر جو مرکز گریز قوتیں ہیں یا مذہب بیزار قوتیں ہیں، وہ اپنے اپنے علاقوں میں اپنی گرفت کو مضبوط کیے جا رہی ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ہم زبوں حالی کا شکار ہوتے جا رہے ہیں، جہاں دنیا میں معیشت کمزور ہو جائے وہاں قومی وحدت بھی کمزور ہوجاتی ہے، وہاں وطن اور ملک کے ساتھ کمٹمنٹ کمزور ہو جاتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہماری صحافی برادری مجھ ہر تبصرے کرتی ہے کہ میں الیکشن ملتوی کروانا چاہتا ہوں لیکن الیکشن ملتوی نہیں کررہا بلکہ ان کے غلط فیصلوں کی نشاندہی کررہا ہوں، الیکشن کے لیے تو ہم نے 2018 کا الیکشن تسلیم نہیں کیا، ساڑھے تین سال ہم نے دوبارہ انتخابات کا مطالبہ کیا اور ہمیں الیکشن سے ڈرایا جاتا ہے، جو ہمیں الیکشن سے ڈراتا ہے وہ اس صوبے کے بلدیاتی الیکشن کے نتائج دیکھ لے۔

مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ پتا نہیں نگران حکومت کی ضرورت کیا ہے، دنیا میں تو کہیں ایسا نہیں ہے، جس کے ہاتھ میں کچھ بھی نہیں اور میں پاکستان کی تمام جماعتوں سنجیدگی کی طرف آنے کی دعوت دیتا ہوں کہ اس وطن عزیز کو بچانے کے لیے سوچیں، اگر کوئی میری آواز پر لبیک کہتا ہے تو میں اکیلے ہی آگے بڑھوں گا۔

انہوں نے کہا کہ آج ملک اور قوم کو اعتماد میں لینے کی ضرورت ہے، اسی مقصد کے لیے ہم نے آگے بڑھنا ہے، انتخابات جب آئیں لیکن یہ جو الیکشن کمیشن نے کہا ہے کہ جنوری کے آخر میں الیکشن ہوں گے تو اس وقت آدھے پاکستان میں برف ہو گی، یہ زمینی حقیقت ہے، کیا ہم اپنے ملک کے موسم کو نہیں جانتے۔

ان کا کہنا تھا کہ ہم نے تو الیکشن کمیشن کو مشورہ دیا ہے یا تو پھر آئین کے مطابق چلنبا ہے تو 90 دن کے اندر کراؤ اور اگر سب نے اتفاق رائے کے ساتھ نئی مردم شماری کے تحت الیکشن کرانے پر دستخط کیے ہیں تو پھر نئی مردم شماری کے تحت تو الیکشن کمیشن کو نئی حلقہ بندیاں بھی کرنی ہیں۔

کارٹون

کارٹون : 4 اکتوبر 2024
کارٹون : 3 اکتوبر 2024