پروپیگنڈا پھیلانے والے نشریاتی ادارے کو چینی موبائل کمپنیوں سے فنڈنگ ہوئی، بھارتی پولیس کا الزام
بھارت کی پولیس نے الزام عائد کیا ہے کہ چینی اسمارٹ فون بنانے والی کمپنیوں ’شیاؤمی‘ اور ’ویوو موبائل‘ نے ملک میں چینی پروپیگنڈا پھیلانے والے نیوز پورٹل کو غیرقانونی فنڈز فراہم کرنے میں مدد کی۔
غیر ملکی خبر ایجنسی ’رائٹرز‘ کی رپورٹ کے مطابق بھارت میں شیاؤمی کمپنی کے ترجمان نے ان الزامات کی سختی سے تردید کی ہے جبکہ ویوو موبائل اور زیر تفتیش نیوز پورٹل ’نیوز کلک‘ نے اس پر کوئی تبصرہ نہیں کیا۔
بھارتی میڈیا کے حقوق کے کام کرنے والے اداروں اور اپوزیشن جماعتوں نے کہا کہ نیوز کلک کے خلاف تفتیش اور الزامات درحقیقت پریس کے خلاف کریک ڈاؤن کا حصہ ہیں، تاہم حکومت نے اس الزام کو مسترد کردیا ہے۔
رپورٹ کے مطابق یہ الزامات پولیس کے پاس درج ایک شکایت کا حصہ تھے جو کہ 17 اگست کو درج کی گئی تھی۔
خیال رہے کہ حکام نے نیوز کلک کے نئی دہلی میں دفتر ، اس سے منسلک صحافیوں اور لکھاریوں کے گھروں پر چھاپے مارے تھے اور بعدازاں اس کے بانی مدیر سمیت سینئر عہدیداروں کو گرفتار کیا تھا۔
شکایت میں نیوز کلک کے بانی پر الزام عائد کیا گیا ہے کہ انہوں نے ایک چھوٹے رضاکار گروپ کے ساتھ مل کر بھارت کی سالمیت کو نقصان پہنچانے کے لیے سازش کی جس کی وجہ سے عدم اطمینان پیدا ہوا۔
پولیس کے پاس موجود دستاویز میں کہا گیا ہے کہ اس منصوبے کا حصہ ہونے کے ناطے چین کی طرف سے بھارتی پالیسیوں اور منصوبوں پر تنقید کرنے والی متعصب خبریں اور چینی پالیسیوں اور پروگرامز کے حق میں خبریں نشر کرنے کے لیے نیوز کلک نشریاتی ادارے کو بڑے پیمانے پر فنڈز جاری کیے گئے۔
ایک سینیئر پولیس افسر نے تصدیق کی کہ دستاویز حقیقت پر مبنی ہے اور اس میں ان دو بڑی کمپنیوں پر الزامات عائد ہیں۔
تاہم ایف آئی آر کا حوالہ دیتے ہوئے بھارت میں شیاؤمی کمپنی کے ترجمان نے کہا کہ ’ہمیں اس بارے میں کوئی علم نہیں، ہم شیاؤمی کے خلاف ان الزامات کی سختی سے تردید کرتے ہیں‘۔
ترجمان نے کہا کہ شیاؤمی احترام کے ساتھ اور قابل اطلاق قوانین کی سختی سے تعمیل کرتے ہوئے اپنے کاروباری سرگرمیاں چلاتی ہے، اس پر سازش کا کوئی بھی الزام بالکل بے بنیاد ہے۔
خیال رہے کہ شیاؤمی اور ویوو بھارت کے سب سے بڑے موبائل برانڈ ہیں۔
پولیس دستاویز میں مزید کوئی تفصیلات شامل نہیں کی گئیں کہ یہ معلومات کس طرح حاصل کی گئیں اور اب پولیس کن اقدامات پر غور کر رہی ہے۔
تاہم رواں ہفتے نیوز کلک نشریاتی ادارے نے کہا تھا کہ اس نے کسی چینی اتھارٹی کے کہنے پر کوئی بھی خبر یا معلومات نشر نہیں کی اور اس کے وکلا نے اس کیس کو دہلی ہائی کورٹ میں چلینج کیا ہے۔
چین نے ماضی میں بھی بھارت میں مداخلت کے الزامات کو مسترد کیا ہے اور بھارت سے مطالبہ کیا ہے کہ چینی کمپنیوں کو منصفانہ اور بلا امتیاز ماحول فراہم کیا جائے۔
خیال رہے کہ بھارت اور چین کے تعلقات 2020 میں ہمالیائی سرحد پر فوجی تنازع کے بعد کشیدہ رہے ہیں جس میں 20 بھارتی اور 4 چینی فوجی ہلاک ہوئے تھے۔
تاہم متعدد فوجی اور سفارتی مذاکرات کے بعد سرحد پر تناؤ میں کمی آئی ہے لیکن بھارت کا کہنا ہے کہ اس وقت تک تعلقات معمول پر نہیں آسکتے جب تک مکمل علیحدگی اور تعلقات میں کمی نہیں ہوتی۔