دبئی میں مقیم پاکستانی مہِم جُو نمیرہ سلیم آج تاریخی خلائی سفر پر روانہ ہوں گی
دبئی میں مقیم پاکستانی ایڈونچرر نمیرہ سلیم اپنے خوابوں کو پورا کرنے کے لیے 17 سال کے انتظار کے بعد آج نجی کمرشل اسپیس فلائٹ کے ساتھ خلا کے سیاحتی سفر پر روانہ ہوں گی، وہ ملک کی پہلی خاتون خلاباز ہوں گی جو اس تاریخی سفر کا حصہ بنیں گی۔
کیلیفورنیا میں ورجن گیلیکٹک کے نام سے نجی خلائی پرواز کمپنی 2004 میں قائم ہوئی تھی، یہ کمپنی اگلے ماہ چوتھی خلائی پرواز شروع کرے گی جس میں امریکا، برطانیہ اور پاکستان سے تین خلائی سیاح سفر کریں گے۔
پاکستان سے نمیرہ سلیم خلا کا سیاحتی سفر کرکے پہلی پاکستانی خاتون کا اعزاز حاصل کرکے تاریخ رقم کریں گی۔
وہ آج مقامی وقت کے مطابق شام 6 بجے خلا کے سیاحتی سفر کے لیے روانہ ہوں گی۔
نمیرہ سلیم نے 2006 میں خلائی سفر کا ٹکٹ خریدنے کے لیے 2 لاکھ ڈالرز ادا کیے تھے، اور اب اس کی موجودہ قیمت 4 لاکھ 50 ہزار ڈالرز ہوچکی ہے۔
نمیرہ سلیم نے عرب نیوز کو انٹرویو دیتے ہوئے بتایا تھا کہ ’جنوری 2006 کو میں نے ورجن گیلیکٹک کے ساتھ معاہدہ کیا تھا اور ایک ٹکٹ خریدا تھا، لیکن اس وقت کون جانتا تھا کہ اس خواب کو پورا کرنے کے لیے 17 سال لگیں گے۔‘
انہوں نے مزید کہا تھا کہ ’گزشتہ ہفتے میں نے آفیشل طور پر سبز پرچم لینے کے لیے پاکستان کا دورہ کیا تھا، اپنے سبز پرچم کو بلندی تک پہنچانا میرے لیے اعزاز کی بات ہوگی۔‘
انہوں نے انٹرویو دیتے ہوئے بتایا تھا کہ ’خلائی سفر کے مشن میں ہم زمین کے مدار کے باہر جائیں گے اور پھر دوبارہ واپس آئیں گے، عام طور پر زمین سے راکٹ لانچ کرنے میں تقریباً 9 سے 11 منٹ لگتے ہیں، لیکن ہمارا خلائی سفر منفرد ہے کیونکہ ہمارے خلائی جہاز کو ایک خصوصی مدر شپ کے ذریعے 50 ہزار فٹ تک لے جایا جائے گا، اور پھر راکٹ موٹر انجن کے ذریعے خلا تک پہنچیں گے۔‘
نمیرہ سلیم کے پاس اپریل 2007 میں قطب شمالی اور جنوری 2008 میں قطب جنوب تک پہنچنے والی پہلی پاکستانی خاتون ہونے کا بھی اعزاز موجود ہے۔
یہی نہیں نمیرہ سلیم کو 2008 میں ماؤنٹ ایورسٹ پر اسکائی ڈائیو کرنے والی پہلی ایشیائی اور پہلی پاکستانی خاتون ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہے، اِنہیں 2011 میں تمغہ امتیاز سے بھی نوازا گیا تھا۔
خاتون خلاباز کو خلائی تحقیق سے متعلق ان کے جنون اور جذبے کے لیے 2016 میں فیمینا مڈل ایسٹ ویمن ایوارڈ سے بھی نوازا گیا۔
نمیرہ سلیم کا کہنا تھا کہ ’میں ہمیشہ کہتی ہوں کہ اسپیس میرے ڈی این اے میں ہے، میں جب بہت چھوٹی تھی تو میں اپنے والدین سے کہتی تھی کہ مجھے کھلونوں سے نہیں کھیلنا، میں اسپیس میں جانا چاہتی ہوں اور جب میں 14 سال کی ہوئی تو میرے والد نے مجھے پہلی بار دوربین خرید کر دی۔‘