تنخواہ دار طبقے پر مزید ٹیکس عائد کرنے کیلئے عالمی بینک کی تجویز کی شدید مخالفت
تنخواہ دار طبقے پر ٹیکس بڑھا کر محصولات میں اضافے کی عالمی بینک کی تجویز سے ملک بھر کے پیشہ ور طبقے میں غم و غصے کی لہر دوڑ گئی ہے، جو پہلے ہی مہنگائی کی وجہ سے پریشان ہیں۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق عالمی بینک کی رپورٹ ’پاکستان ڈیولپمنٹ آؤٹ لک‘ میں شامل تجاویز کے مطابق سب سے بڑا ہدف ٹیکس نیٹ میں غیرموجود طبقات کو شامل کرکے ٹیکس بیس بڑھانا اور حکومتی اخراجات کو معقول بنانا ہے۔
اگر یہ تجویز قبول کر لی جائے تو یہ پہلے سے ہی بھاری ٹیکس ادا کرنے والے تنخواد دار طبقے پر اضافی مالی بوجھ کا سبب بنے گی، مہنگائی کے سبب حالیہ اضافے کے پیش نظر تنخواہ دار طبقے کو شدید مالی دباؤ کا سامنا ہے۔
چیئرمین آل پرائیویٹ اسکولز ایسوسی ایشن (اے پی ایس اے) طارق شاہ نے کہا یہ تجویز بلاشبہ پریشان کن ہے، موجودہ حالات کو دیکھتے ہوئے میں پختہ یقین رکھتا ہوں کہ 50 ہزار روپے سے زیادہ کمانے والے افراد کو بھی ٹیکس میں ریلیف ملنا چاہیے۔
سربراہ پرائیویٹ اسکولز مینجمنٹ ایسوسی ایشن دانش الزمان نے محدود آمدنی والے افراد پر ٹیکس کا بوجھ ڈالنے کو ’غیر انسانی‘ قرار دیا۔
انہوں نے کہا کہ بہت سے اساتذہ کو معمولی تنخواہوں کے ساتھ اپنے گھر والوں کی دیکھ بھال کے لیے پہلے ہی کافی چیلنجز کا سامنا ہے، اُن پر اضافی مالی بوجھ ڈالنا غیر منصفانہ اور قابل مذمت ہے۔
پاکستان انجینئرنگ کونسل کے رکن عادل عسکری نے اس بات پر زور دیا کہ ایسا اقدام متوسط طبقے کو درپیش مشکلات مزید بڑھا دے گا۔
انہوں نے کہا کہ ان لوگوں پر دباؤ ڈالنا کوئی معقول خیال نہیں ہے جو پہلے سے ہی بجلی کے بھاری بلوں کی ادائیگی کے سبب مشکلات کا سامنا کر رہے ہیں۔
ینگ ڈاکٹرز ایسوسی ایشن کے ڈاکٹر عمر سلطان نے کہا کہ اس تجویز سے پاکستان ’غلطی سے‘ ایک ’ترقی یافتہ‘ ملک سمجھا جانے لگے گا حالانکہ پاکستان ایک ترقی پذیر ملک کے طور پر متعدد چیلنجز سے دوچار ہے۔
انہوں نے کہا کہ میرے خیال میں ایک لاکھ سے زائد تنخواہ کمانے والے لوگ بھی مالی طور پر مستحکم نہیں ہیں، انسانی حقوق کی بات کرنے والی ایک عالمی تنظیم ایک ایسے پسماندہ ملک کی آبادی سے ٹیکس ادا کرنے کی توقع کیسے رکھ سکتی ہے جنہیں پہلے ہی بلز کی ادائیگی میں مشکلات کا سامنا ہے؟