بلند شرح سود ملکی قرضوں میں 70 کھرب روپے اضافے کا سبب قرار
اسٹیٹ بینک کی جانب سے شرح سود 10 فیصد سے بڑھا کر 22 فیصد تک کرنے کی وجہ سے گزشتہ برس جنوری سے اب تک پاکستان کے ملکی قرضوں میں 70 کھرب روپے سے زائد کے اضافے کا تخمینہ لگایا گیا ہے۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ نے کچھ کمپنیوں کی جانب سے سولر پینلز کی درآمد کے ذریعے 69 ارب روپے سے زائد کی تجارت پر مبنی منی لانڈرنگ کی علیحدہ علیحدہ رپورٹس بھی اسٹیٹ بینک آف پاکستان اور فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) سے طلب کر لیں۔
سینیٹر سلیم مانڈوی والا کی زیرِ صدارت اجلاس میں متعدد سینیٹرز نے ملک میں بلند شرح سود پر اسٹیٹ بینک کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ یہ مہنگائی میں اضافے اور کاروباروں کے ناکام ہونے کا سبب بن رہا ہے۔
اسٹیٹ بینک نے شرح سود میں اضافے کا دفاع کرتے ہوئے اسے مہنگائی پر قابو پانے کے لیے اٹھایا جانے والا اقدام قرار دیا، سینیٹ پینل نے اسٹیٹ بینک کو اس حوالے سے تفصیلی رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت کردی۔
بلند شرح سود اور کاروباری افراد پر اس کے اثرات پر گفتگو کرتے ہوئے سینیٹر ذیشان خانزادہ نے کہا کہ شرح سود میں غیر معقول اضافے نے کاروبار کے فروغ میں کردار ادا کرنا تو دور اسے برقرار رکھنا بھی مشکل بنا دیا ہے۔
ایک سینیٹر کے سوال کے جواب میں ایک سینیئر عہدیدار نے کہا کہ شرح سود میں ایک فیصد اضافے سے قرض کے حجم میں 600 ارب روپے کا اضافہ ہو جاتا ہے۔
اسٹیٹ بینک کی شرح سود جنوری 2022 میں 9.75 فیصد سے بڑھ کر اُسی برس اپریل میں 12.25 فیصد اور پھر رواں برس جون کے آخر تک 22 فیصد ہو گئی، دریں اثنا جنوری 2022 سے ملکی قرضوں میں ساڑھے 73 کھرب روپے اور اپریل 2022 سے تقریباً 60کھرب روپے کا اضافہ ہوا ہے۔
ڈپٹی گورنر اسٹیٹ بینک ڈاکٹر عنایت حسین نے کہا کہ بڑھتی ہوئی مہنگائی پر قابو پانے کے لیے شرح سود میں اضافہ کیا گیا ہے اور اس کے نمایاں نتائج گزشتہ چند ماہ کے دوران سامنے آئے ہیں۔
تاہم سینیٹر مانڈوی والا نے حیرت کا اظہار کیا کہ کس طرح شرح سود سے بڑھتی ہوئی مہنگائی کو مؤثر طریقے سے کنٹرول کیا جا سکتا ہے، انہوں نے اسٹیٹ بینک کو اس حوالے سے ایک جامع رپورٹ فراہم کرنے کی ہدایت کردی۔
سولر پینلز کے درآمد کنندگان کی جانب سے بڑے پیمانے پر منی لانڈرنگ کا مشاہدہ کرتے ہوئے ایف بی آر کے سربراہ کسٹمز نے سینیٹ پینل کو بتایا کہ 7 کمپنیاں تجارت پر مبنی منی لانڈرنگ میں ملوث پائی گئیں اور ان کے خلاف 6 ایف آئی آر درج کی گئیں۔
ایف بی آر نے کہا کہ سولر پینلز ڈیوٹی فری امپورٹ اسٹیٹس اور مقامی سپلائی پر سیلز ٹیکس نہ ہونے کی وجہ سے اوور انوائسنگ اور تجارت پر مبنی منی لانڈرنگ کا ذریعہ بن گئے ہیں۔
2017 سے 2022 کے درمیان سولر پینل کی درآمدات میں بڑے پیمانے پر اضافہ ہوا، جس کے ساتھ غیرقانونی مالیاتی سرگرمیاں انجام دینے کے لیے ڈیوٹی اور ٹیکس فری درآمدات کا غلط استعمال کرنے والی ڈمی کمپنیاں بھی سامنے آگئیں۔
تقریباً 75 ارب روپے مالیت کے سولر پینلز مبینہ طور پر چین سے درآمد کیے گئے لیکن ادائیگیاں متحدہ عرب امارات (یو اے ای) یا سنگاپور کو کی گئیں اور یہ تمام پینلز مقامی مارکیٹ میں درآمد کی گئی قیمت کے مقابلے میں تقریباً آدھی قیمت پر فروخت کیے گئے۔
سینیٹر سلیم مانڈوی والا نے کہا کہ سولر پینل کے درآمد کنندگان گزشتہ 5 برسوں میں 69 ارب روپے کی منی لانڈرنگ کرنے میں کامیاب ہوئے اور ایف بی آر کی نظروں میں آنے یا کسی سوال جواب کا سامنا کیے بغیر 25 ارب روپے سے زائد رقم 2 مختلف اکاؤنٹس میں جمع کرادی گئی۔
انہوں نے تجویز پیش کی کہ کیس کو جامع تحقیقات کے لیے وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کو بھیجا جائے لیکن کچھ سینیٹرز نے رائے دی کہ پہلے اسٹیٹ بینک اور ایف بی آر کو تحقیقات مکمل کرنے دی جائے، بعدازاں کمیٹی نے دونوں اداروں کو معاملے کی علیحدہ علیحدہ طور پر تحقیقات کرکے رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت کردی۔