شعبہ طب کا نوبل پرائز کورونا ویکسین کی تحقیق کرنے والے 2 سائنسدانوں کے نام
ہنگری کی سائنس دان کاٹالن کریکو اور ان کے امریکی ساتھی ڈریو ویزمین کو رواں برس شعبہ طب کے نوبل پرائز سے نواز دیا گیا ہے جنہوں نے ایم آر این اے مالیکیول دریافت کرکے کورونا وبا کے خلاف ویکسین تیار کرنے کی راہ ہموار کی۔
نوبل پرائز سے نوازنے والی سویڈش اکیڈمی نے ان دونوں کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ کہ دونوں سائنسدانوں نے جدید دور میں انسانی صحت کے لیے سب سے بڑے خطرات میں سے ایک کے دوران ویکسین کی تیاری میں اپنا نمایاں حصہ ڈالا۔
سائنسی دنیا کے سب سے باوقار انعامات میں شمار کیے جانے والے اس انعام کا انتخاب سویڈن کی کیرولنسکا انسٹی ٹیوٹ میڈیکل یونیورسٹی کی نوبل اسمبلی نے کیا، دونوں کو 11 ملین سویڈش کراؤنز (تقریباً 10 لاکھ ڈالرز) سے نوازا جائے گا۔
کاٹالن کریکو جرمن بائیوٹیک فرم ’بائیون ٹیک‘ میں سابق سینئر نائب صدر اور آر این اے پروٹین ریپلیسمنٹ کے سربراہ ہیں، وہ ہنگری کی سیزڈ یونیورسٹی اور یونیورسٹی آف پنسلوانیا میں پروفیسر بھی ہیں۔
نوبل پرائز جیتنے پر کاٹالن کریکو کا کہنا تھا کہ ہم کسی انعام یا معاوضے کے لیے کام نہیں کر رہے تھے، اہم یہی تھا کہ ایک ایسی چیز تیار کی جائے جو مددگار ثابت ہو۔
ڈریو ویزمین نے کاٹالن کریکو کے ساتھ کام کرنے کے اپنے 20 سالہ تجربے کو یاد کرتے ہوئے کہا کہ نوبل پرائز جیتنا ایک خواب کے جیسا ہے۔
2005 میں کاٹالن کریکو اور ڈریو ویزمین نے نیوکلیوسائیڈ بیس موڈیفکیشن تیار کی تھی جو مدافعتی نظام کو لیبارٹری میں بنائے گئے ایم آر این اے کے خلاف شدید حملہ شروع کرنے سے روکتی ہے، اسے پہلے ٹیکنالوجی کے کسی بھی علاج کے استعمال کے خلاف ایک بڑی رکاوٹ کے طور پر سمجھا جاتا تھا۔
ڈریو ویزمین نے کہا کہ ہم لوگوں کو یہ باور نہیں کروا پارہے تھے کہ آر این اے ایک مفید چیز ہے، تقریباً سب ہی اس سے دستبردار ہوچکے تھے۔
بائیو ان ٹیک نے رواں برس جون میں کہا تھا کہ دنیا بھر میں تقریباً ڈیڑھ ارب لوگ اس کا ایم آر این اے شاٹ لے چکے ہیں، جو فائزر کے ساتھ مل کر تیار کیا گیا، یہ مغربی ممالک میں سب سے زیادہ استعمال ہونے والا شاٹ ہے۔
نوبل پرائزز دینے جانے کا سلسلہ پہلی بار 1901 میں شروع کیا گیا تھا ، جس کے آغاز سویڈن سے تعلق رکھنے والے ڈائنامائٹ کے مؤجد اور امیر تاجر الفریڈ نوبل نے کیا تھا۔
کاٹالن کریکو نے کہا کہ جو کام آپ کر رہے ہیں اگر آپ اس سے لطف اندوز نہیں ہوتے تو آپ کو وہ کام نہیں کرنا چاہیے، اگر آپ امیر ہونا چاہتے ہیں تو مجھے اس کا طریقہ نہیں معلوم لیکن اگر آپ مسائل کو حل کرنا چاہتے ہیں تو سائنس کا میدان آپ کے لیے حاضر ہے۔