’اسکول کی فیس ادا کرنےکیلئے نمکو فروخت کی‘، حارث رؤف سُپراسٹار کیسے بنے؟
پاکستان کرکٹ ٹیم کے اسٹار فاسٹ باؤلر حارث رؤف نے اپنے کرکٹ کے سفر کے دوران آنے والی مشکلات اور چیلنجز پر کھل کر بات کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے راولپنڈی کی گلیوں سے کھیلنا شروع کیا تھا، والد سے بہت مار کھائی لیکن اپنے شوق سے پیچھے نہیں ہٹے۔
حارث رؤف جنوری 2020 میں اپنے ڈیبیو کے بعد سے وائٹ بال کرکٹ میں پاکستان کے نمبر ون باؤلر بن کر ابھرے ہیں۔
حارث نے مالی طور پر مستحکم نہ ہونے کی وجہ سے اپنے کرئیر میں بہت سے اتار چڑھاؤ دیکھے جس کی وجہ سے انہوں نے گھر کا خرچہ اور یونیورسٹی کی فیس ادا کرنے کے لیے ٹیپ بال کرکٹ کھیلی، یہی نہیں بلکہ وہ بازار میں نمکو بھی بیچتے تھے۔
کرک انفو کو انٹرویو دیتے ہوئے حارث رؤف نے انکشاف کیا کہ ’میٹرک کے بعد ہر اتوار کو بازار میں نمکو بیچنے کا کام کرتا تھا، بعدازاں ٹیپ بال کھیل کر یونیورسٹی کی فیس ادا کی۔‘
انہوں نے کہا کہ ’جب میں نے یونیورسٹی میں داخلہ لیا تو میرے والد کی اتنی کمائی نہیں تھی کہ وہ میری فیس ادا کرسکیں، لیکن ٹیپ بال کھیل کر فی سمسٹر 70 سے 80 ہزار فیس ادا کرلیتا تھا۔ ’
انہوں نے کہا کہ ’جو لڑکے پاکستان میں پروفیشنل ٹیپ بال کھلتے ہیں وہ ماہانہ ڈھائی لاکھ تک آسانی سے کما لیتے ہیں، میں نے بھی ایسا ہی کیا، کچھ کمائی اپنی والدہ کو دیتا اور کچھ اپنے پاس رکھتا کہ مستقبل میں کام آسکے لیکن والد کو اپنی کمائی کے بارے میں کبھی نہیں بتایا تھا۔‘
’میرے والد کے تین بھائی ہیں اور سب اکٹھے رہتے تھے، میرے والد کا ایک بڑا کمرہ تھا اور جب میرے چچا کی شادی ہوئی تو میرے والد نے اپنا کمرہ اپنے بھائیوں کو دے دیا، بالآخر ایسا وقت بھی آیا کہ ہم کچن کے اندر سونے پر مجبور ہوگئے۔‘
حارث رؤف نے اپنے کرکٹ کے سفر کا آغاز صوبہ پنجاب کے شہر راولپنڈی کی گلیوں سے کیا اور کچھ ہی برسوں میں وہ دنیائے کرکٹ میں شہرت کی بلندیوں پر پہنچ گئے۔
وہ اپنے بچپن میں راولپنڈی کی گلی محلوں میں کھیل کر بڑے ہوئے، حارث رؤف کو اُن کے والد کرکٹ کھیلنے سے منع کرتے تھے، یہاں تک کہ کرکٹ کھیلنے کے لیے انہیں اپنے والد سے دن میں تین تین مرتبہ مار بھی کھانی پڑی۔
وہ اپنے گھر سے پڑھائی کا بہانہ کر کے جاتے اور دوست کے ہاں رکھا کرکٹ کا سامان اٹھا کر وہ میدان میں پہنچ جاتے تھے۔
ٹیپ بال سے لاہور قلندرز کی ٹیم میں پہنچنے کے سفر کے بارے میں بات کرتے ہوئے حارث رؤف نے بتایا کہ ایک دن وہ اپنے دوست کے مشورے پر گجرانوالہ میں ٹرائل دینے پہنچ گئے۔
انہوں نے بتایا کہ ’گھر میں کسی کو نہیں معلوم تھا کہ میں ٹرائل دینے جارہا ہوں، سینکڑوں کی تعداد میں موجود امیدوار موجود تھے، میں اپنے دوستوں کے ساتھ ٹرائل دے رہا تھا، میں ایک ایک مرحلہ پار کرتا گیا اور جب آخری ٹرائل کا وقت آیا تو 88 میل فی گھنٹہ کی رفتار میں سب سے زیادہ تیز گیند کروائی، وہاں موجود کوچز کو یقین نہیں آیا، وہ سمجھے کہ شاید اسپیڈ ٹیسٹ خراب ہے۔‘
حارث رؤف نے بتایا کہ ’مجھے عاقب جاوید نے دوسری گیند کروانے کا کہا اور جب میں نے دوسری گیند سے 90 میل فی گھنٹہ رفتار سے تیز کروائی اور تیسری گیند سے 92.3 میل فی گھنٹہ رفتار سے کروائی تو میری تیز رفتاری دیکھ کر لاہور قلندرز کے کوچ طاہر مغل اور عاقب جاوید حیران ہوگئے۔‘
ٹیپ بال سے لاہور قلندرز کے کیمپ کا حصہ بننے اور پروفیشنل کرکٹ میں آنے پر حارث رؤف کو فٹنس سمیت کئی مشکلات آئیں، ان تمام مشکلات کے باوجود انہوں نے اپنی صحت اور فٹنس پر سخت محنت کی اور پاکستان سپر لیگ کے پہلے سیزن میں اپنی شاندار پرفارمنس سے دنیا میں اپنا نام بنا لیا۔
حارث رؤف کو لاہور قلندرز نے 2017 میں اپنے پلیئر ڈیولپمنٹ پروگرام (پی ڈی پی) کے تحت آسٹریلیا بھیجا تھا، یہ وہی موقع تھا۔
اس کے بعد 2018 میں وہ اسی پروگرام کے تحت لاہور قلندرز کی ٹیم میں ابو ظبی ٹی 20 ٹرافی کھیلنے گئے تھے جس میں اُن کی ٹیم چیمپیئن بنی تھی۔
سنہ 2019 وہ سال تھا جب حارث رؤف نے یو اے ای میں کھیلے گئے پاکستان سپر لیگ کے سیزن میں لاہور قلندرز کی جانب سے ڈیبیو کیا اور پھر لیگ میں اپنے چوتھے میچ میں ہی انہوں نے 150 کلومیٹر فی گھٹنہ کی گیند کروائی۔
وائٹ بال کرکٹ میں حارث رؤف کی کامیابی کا سفر جاری ہے، انہوں نے اب تک 62 انٹرنیشنل ٹی 20 میچز میں 83 وکٹیں حاصل کیں اور 28 ون ڈے میچز میں 53 کھلاڑیوں کا شکار کیا۔
سخت محنت اور مسلسل کوششوں کے بعد وہ پہلی بار بھارت میں اپنا پہلا ون ڈے فارمیٹ کرکٹ ورلڈکپ کھیل رہے ہیں۔