بلوچستان میں جتنے بھی بڑے واقعات ہوئے، سب میں ’را‘ ملوث ہے، نگران وزیر داخلہ
نگران وفاقی وزیر داخلہ سرفراز بگٹی نے کہا ہے کہ بلوچستان میں جتنے بھی بڑے واقعات ہوئے ہیں، ان سب میں (بھارتی خفیہ ایجنسی) ’را‘ ملوث ہے اور جو قوتیں پاکستان میں عدم استحکام پیدا کرنا چاہتی ہیں، ہم ان کے خلاف جائیں گے۔
کوئٹہ میں میڈیا سے بات کرتے ہوئے نگران وزیر داخلہ سرفراز بگٹی نے بتایا کہ میں جو کہہ رہا ہوں کہ ہمیں پتا ہے، یہ جو ہم نے دو تین سال میں دیکھا، نرمی کی پالیسی کے لیے ٹالرنس نہیں ہے، ہمیں پتا ہے کہ کہاں سے آپریٹ ہو رہا ہے، ضروری نہیں ہے کہ اس پلیٹ فارم سے بتایا جائے، ہم اسٹرائیک کریں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ ہم ان کے بلوں میں جائیں گے، جہاں وہ بلوں میں پلتے ہیں، جو ان کے لیے محفوظ جگہیں ہیں، ہم ان کے خلاف جائیں گے۔
خیال رہے کہ گزشتہ روز بلوچستان کے ضلع مستونگ میں 12 ربیع الاول کے جلوس میں ہونے والے خود کش دھماکے کے نتیجے میں پولیس افسر سمیت 53 افراد جاں بحق اور درجنوں شہری زخمی ہوگئے تھے۔
سرفراز بگٹی نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ بلوچستان میں دہشت گرد تنظیم کی ’منظم موجودگی‘ اس سے پہلے نہیں تھی، اب ان کے جو حملے ہو رہے ہیں، ظاہر ہے اس کی تحقیقات کر رہے ہیں، بسا اوقات یہ ہوتا ہے کہ حملہ کوئی اور کرتا ہے لیکن قبول کوئی اور کرتا ہے، جو مرضی ہو، داعش، کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) یا کوئی اور، کسی بھی نام پر تشدد کر رہا ہے، ہم ان کے پیچھے جائیں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ جمعیت علمائے اسلام (ف) کے رہنما حافظ حمد اللہ کا جو واقعہ ہوا ہے، ہم نے اس کے ماسٹر مائنڈ کو مارا ہے، جو لوگ سہولت کاری کا کردار ادا کر رہے ہیں، جو بھی کر رہا ہے، وہ کوئی بھی ہو، آپ اس کو جو بھی نام دے دیں، ہمارے لیے سب ایک ہی ہیں، سب کی نانی ایک ہے، سب کو ایک جگہ سے ہینڈل کیا جارہا ہے، اس سے پہلے جتنے بھی واقعات ہوئے ہیں، ان سب کے پیچھے بھارتی خفیہ ایجنسی ’را (ریسرچ اینڈ اینالسز )‘ ہے۔
سرفراز بگٹی نے کہا کہ بلوچستان میں جتنے بھی بڑے واقعات ہوئے ہیں، ان سب میں ’را‘ ملوث ہے، جو قوتیں پاکستان میں عدم استحکام پیدا کرنا چاہتی ہیں، ہم ان کے خلاف جائیں گے۔
ایک سوال کے جواب انہوں نے کہا کہ بنیادی بات یہ ہے کہ ہم اپنی سیکیورٹی کے حوالے سے ایک جامع معائنہ کریں گے، اس طرح آپ نے دیکھا ہوگا کہ 12 ربیع الاول کے حوالے سے اس سے پہلے کوئی حملہ نہیں ہوا ہے، بلوچستان میں یہ پہلا حملہ ہے، جو 12 ربیع الاول کے حوالے سے ہوا ہے، اس سے پہلے ہزارہ کمیونٹی کو ٹارگٹ کیا جاتا رہا۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ محرم کے حوالے سے بھی ٹارگٹ ہوئے، قانون نافذ کرنے والے اداروں کو نشانہ بنایا گیا، اس کے لیے ایس او پیز سیٹ کر دی گئی تھیں، آیا اس کے لیے ایس او پیز طے کی گئی تھیں، صوبائی حکومت اپنے طور پر دیکھ رہی ہے۔
ان سے سوال پوچھا گیا کہ مستونگ کے حالات خراب ہیں، ایک ڈسٹرکٹ نہیں سنبھل رہا، کیسے پورے صوبے میں آپریشن ہوگا، اور جو ڈیرہ بگٹی سے فٹ بالر اغوا ہوئے تھے، وہ بازیاب ہو گئے ہیں، اس پر نگران وفاقی وزیر داخلہ نے بتایا کہ 4 (فٹ بالر) تو آگئے ہیں، اور باقی 2 بھی بازیاب ہو جائیں گے، چاہے ایک انچ ہو، دیکھیں اس لڑائی کو سمجھنے کی کوشش کریں کہ دہشت گردی کی جنگ جو آپ لڑ رہے ہیں، ہم نے ایک ایک انچ کی حفاظت کرنی ہے، یہ ہماری ذمہ داری ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ریاست نے یہ تہیہ کر لیا ہے کہ زیرو ٹالرنس ہوگی، ہمارے یہاں مسئلہ یہ ہے کہ ہم دہشت گردوں کے خلاف ایک مخصوص سطح تک پہنچتے ہیں، چاہے وہ قوم پرستی کے نام پر دہشت گردی ہے، چاہے وہ مذہب کے نام پر ہے، تو اچانک سے ہماری ریاست نرمی کی پالیسی پر آجاتی ہے، اب ہم نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ اب یہ نہیں ہوگا، ہم آخری دہشت گرد تک جائیں گے، ان شا اللہ تعالیٰ ان کا قلع قمع کریں گے۔
چیئرمین سینیٹ کا ہسپتال کا دورہ، زخمیوں کی عیادت
چئیرمین سینیٹ صادق سنجرانی نے مستونگ دھماکے کےزخمیوں کی عیادت کے لیے بلوچستان سے تعلق رکھنے والے سینیٹرز کے ہمراہ سول ہسپتال کوئٹہ کا دورہ کیا اور زخمیوں کی عیادت کی-
س موقع پر چئیرمین سینیٹ نے وزیراعظم اور وزیراعلیٰ بلوچستان سے مستونگ دھماکے کے متاثرین اور شہدا کے لیے پیکج کی درخواست کی اور کہا کہ شہدا کے لیے 20 لاکھ اور زخمیوں کے لیے 10 لاکھ روپے کا پیکج دیا جائے۔
ان کا کہنا تھا کہ امید ہے کہ وزیراعظم اور وزیراعلی بلوچستان مستونگ دھماکے کے شہدا اور زخمیوں کے لیے پیکج کا اعلان کریں گے، انہوں نے زخمیوں کو دی جانے والی طبی سہولیات پر اطمینان کا اظہار کیا-
انہوں نے کہا کہ دہشت گردوں کا اسلام اور انسانیت سے کوئی تعلق نہیں ہے، عیدمیلاد النبیﷺ کے جلوس پر حملہ کرنا دہشت گردوں کی اسلام دشمنی کا واضح ثبوت ہے، افواج پاکستان اور سیکیورٹی فورسز، دہشت گردوں کی جڑیں کاٹ چکی ہیں جلد مکمل نجات مل جائے گی-
صادق سنجرانی نے کہا کہ متاثرین کے دکھ میں برابر کے شریک ہیں اور کسی کو امن عمل کو سبوتاژ کرنے نہیں دیں گے۔
عالمی رہنماؤں کی جانب سے اظہار مذمت
اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس نے مستونگ میں ہونے والے دھماکے کی مذمت کی اور ذمہ داروں کو انصاف کے کٹہرے پر لانے کا مطالبہ کیا۔
سماجی رابطے کی ویب سائٹ ایکس پر بیان میں انہوں نے کہا کہ پرامن مذہبی اجلاس میں لوگوں کو نشانہ بنانا قبیح عمل ہے۔
ریڈیوپاکستان کے مطابق نیویارک میں اقوام متحدہ کے ہیڈکوارٹرز پر انتونیو گوتریس کے ترجمان اسٹیفین دوجارک نے بھی مستونگ حملوں کی مذمت کی۔
اس کے علاوہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے صدر فیرٹ ژوہا نے بھی بیان میں مذکورہ واقعے کی شدید مذمت کی۔
مزید بتایا گیا کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے اراکین نے متاثرہ خاندانوں سے ہمدردی اور تعزیت کا اظہار کیا اور زخمیوں کی فوری صحت یابی کے لیے نیک خواہشات کا اظہار کیا۔
رپورٹ میں بتایا گیا کہ سلامتی کونسل نے یاد دہانی کروائی کہ دہشت گردی ہر پہلو اور ہر شکل میں عالمی امن اور سلامتی کے لیے خطرہ ہے۔
اراکین سلامتی کونسل نے ذمہ داروں، منتظمین، مالی امداد دینے والوں اور دیگر سہولت کاروں کو کٹہرے میں لانے کی ضرورت اجاگر کی اور کہا کہ ان کو سزا دلانا ضروری ہے۔
رپورٹ کے مطابق تمام اراکین نے دنیا پر زور دیا کہ وہ اس حوالے سے پاکستان کے ساتھ ساتھ متعلقہ حکام کے ساتھ بھرپور تعاون کریں جو کہ بین الاقوامی قانون اور سلامتی کونسل کی متعلقہ قراردادوں کے تحت ان کی ذمہ داری ہے۔
وزیراعظم کے دفتر سے جاری بیان میں کہا گیا کہ نگران وزیراعظم انوار الحق کاکڑ کو برطانیہ کے وزیرخارجہ جیمز کلیورلے نے فون کیا۔
وزیراعظم آفس نے بیان میں کہا کہ جیمز کلیورلے نے ہنگو اور مستونگ میں دہشت گردی کے حملوں کی مذمت کی اور معصوم جانوں کے نقصان پر گہرے دکھ اور لواحقین سے اظہار یک جہتی کیا۔
نگران وزیراعظم نے یک جہتی کا اظہار کرنے پر جیمز کلیورلے اور برطانیہ کا شکریہ ادا کیا اور دہشت گردی کی لعنت جڑ سے اکھاڑنے اور دہشت گردی کے واقعات کے ذمہ داروں کو انصاف کے کٹہرے میں لانے کے لیے حکومت کے عزم کا اعادہ کیا۔
واضح رہے کہ گزشتہ روز بلوچستان کے ضلع مستونگ میں 12 ربیع الاول کے جلوس میں خودکش دھماکے میں پولیس افسر سمیت 53 افراد جاں بحق اور درجنوں شہری زخمی ہوگئے تھے۔
اسسٹنٹ کمشنر مستونگ عطا اللہ منعم نے ڈان نیوز ڈاٹ ٹی وی کو بتایا تھا کہ دھماکا جشن عید میلاد النبی صل اللہ علیہ وسلم کے سلسلے میں نکالے جانے والے جلوس کے لیے جمع افراد کے قریب ہوا۔
بلوچستان کے محکمہ انسداد دہشت گردی (سی ٹی ڈی) نے واقعے کا مقدمہ نامعلوم حملہ آوروں کے خلاف درج کرلیا اور بتایا کہ اس حوالے سے تاحال کوئی گرفتاری عمل میں نہیں آئی۔
اس سے قبل رواں ماہ کے اوائل میں مستونگ میں ہونے والے دھماکے میں جے یو آئی (ف) کے سینئر رہنما حافظ حمداللہ سمیت 11 افراد زخمی ہوگئے تھے۔
جبکہ اس سے ایک ہفتہ قبل ایک لیویز اہلکار کو ایک بس اسٹینڈ پر نامعلوم افراد نے گولی مار کر قتل کر دیا تھا جب کہ وہاں سے گزرنے والے دو افراد زخمی بھی ہو ئے تھے۔
رواں سال مئی مستونگ میں پولیو ٹیم پر حملے کے نتیجے میں ایک پولیس کانسٹیبل شہید ہو گیا تھا۔
گزشتہ سال اکتوبر میں مستونگ میں ریموٹ کنٹرول بم دھماکے کے نتیجے میں 3 افراد جاں بحق اور 5 زخمی ہوگئے تھے۔
جولائی 2018 میں اسی ضلع میں خوفناک خودکش دھماکے میں سیاستدان نوابزادہ سراج رئیسانی سمیت کم از کم 128 افراد جاں بحق اور 200 سے زائد زخمی ہو گئے تھے۔