نواز شریف کی وطن واپسی پر قانون اپنا راستہ اختیار کرے گا، نگران وزیراعظم
نگران وزیر اعظم انوارالحق کاکڑ نے کہا ہے کہ جب پاکستان مسلم لیگ(ن) کے قائد نواز شریف پاکستان واپس آئیں گے تو قانون اپنا راستہ خود اختیار کرے گا اور نگران حکومت نے سابق وزیراعظم کی آمد کے حوالے سے منصوبہ بندی کے لیے وزارت قانون سے رابطہ کیا ہے۔
برطانوی نشریاتی ادارے (بی بی سی) اردو کو دیے گئے ایک انٹرویو میں نگران وزیر اعظم انوارالحق کاکڑ نے کہا کہ ہم نے وزارت قانون سے پوچھا ہے کہ نواز شریف کی واپسی پر انتظامی اقدامات کے لحاظ سے نگران حکومت کی حیثیت کیا ہونی چاہیے، وطن واپس پہنچتے ہی میں اس سلسلے میں ایک اجلاس طلب کروں گا۔
انوار الحق کاکڑ نے مزید کہا کہ سابق وزیر اعظم کی گرفتاری سے متعلق فیصلہ عدالتیں کریں گی کیونکہ عدلیہ نے مسلم لیگ(ن) کے قائد کو استثنیٰ دیا تھا جس کے بعد وہ ملک سے باہر روانہ ہوئے تھے۔
انہوں نے کہا کہ ایک سزا یافتہ فرد کو ایگزیکٹو نے نہیں بلکہ عدالتوں نے ملک سے جانے کی اجازت دی تھی، وہ عدالتی اجازت نامے کے ساتھ ملک سے باہر گئے تھے، یہ سوال ایگزیکٹو کے پاس نہیں بلکہ عدالتوں کے پاس ہے۔
خیال رہے کہ رواں ماہ کے اوائل میں مسلم لیگ(ن) کے صدر شہباز شریف نے اعلان کیا تھا کہ ان کے بڑے بھائی 21 اکتوبر کو وطن واپس آجائیں گے، نواز شریف کو 2018 میں العزیزیہ ملز اور ایون فیلڈ ریفرنس میں سزا سنائی گئی تھی۔
تاہم نومبر 2019 میں انہیں طبی بنیادوں پر بیرون ملک جانے کی اجازت دے دی گئی تھی جس کے بعد وہ وطن واپس نہیں آئے اور اگلے سال 2020 میں عدالت نے انہیں اشتہاری قرار دیا تھا۔
10 اگست کو مسلم لیگ (ن) کے صدر شہباز شریف سے جب نواز شریف کی وطن واپسی کے حوالے سے پوچھا گیا تھا تو انہوں نے کہا تھا کہ مسلم لیگ(ن) کے قائد کو وطن واپسی پر قانون کا سامنا کرنا پڑے گا۔
اسی ماہ جب اس حوالے سے لندن میں مسلم لیگ(ن) کے صدر سے پوچھا گیا تھا تو انہوں نے کہا تھا نواز شریف پاکستان آ کر قانون کا سامنا کریں گے اور اس میں کوئی دو رائے نہیں ہے۔
پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان کی رہائی کے بارے میں بات کرتے ہوئے نگران وزیر اعظم انوارالحق کاکڑ نے کہا کہ اگر عمران خان عدالتوں سے ریلیف لینے میں کامیاب نہیں ہوتے تو پھر انہیں نتائج کا سامنا کرنا پڑے گا۔
ان کا کہنا تھا کہ میرا مطلب ہے کہ عدالتی نظام میں جتنے بھی مواقع آپ کے پاس ہیں، اگر ان مواقع کے بعد بھی قوانین کے تحت ان کو الیکشن سے روکا گیا تو یہ ہمارے مینڈیٹ سے باہر ہے کہ ہم ان کو کوئی ریلیف دے سکیں، تو قانون اپنا راستہ خود اختیار کرے گا۔
انہوں نے مزید کہا کہ پی ٹی آئی سے کوئی سختی نہیں برتی جائے گی لیکن جو لوگ ریاست کے خلاف سرگرمیوں میں ملوث تھے، ان کے ساتھ قانون کے مطابق نمٹا جائے گا۔
انہوں نے مزید کہا کہ یہ مخصوص لوگ ہیں جن کی 25 کروڑ کی آبادی میں تعداد 1500 یا 2000 ہے، انہیں پی ٹی آئی سے جوڑنا کوئی منصفانہ تجزیہ نہیں ہے۔
جب ان سے سوال پوچھا گیا کہ اگر چند سیاسی رہنماؤں کو الیکشن میں حصہ لینے کی اجازت نہ دی گئی تو کیا ملک میں جاری سیاسی بحران میں اضافہ ہو گا تو انوار الحق کاکڑ نے کہا کہ یہ کہنا قبل از وقت ہے، ہم قیاس آرائیاں نہیں کر سکتے کہ اس کا نتیجہ کیا ہوگا چونکہ یہ ہمارے مینڈیٹ سے باہر ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ جہاں تک میری حکومت کا تعلق ہے تو ہمارا مقصد بحران روکنا یا بحران پیدا کرنا نہیں ہے، ہمارا کردار قانون کے مطابق انتخابات میں جانا ہے اور اگر انتخابات کے نتیجے میں بحران پیدا ہوتا ہے تو پھر یہ پورے معاشرے اور ریاست کے لیے سوال ہے، یہ نگراں حکومت کے لیے نہیں ہے۔