ملک بھر میں جشنِ عید میلاد النبی ﷺ مذہبی عقیدت و احترام کے ساتھ منایا گیا
پاکستان سمیت دنیا کے کئی ممالک میں نبی آخر الزمان حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کے یومِ ولادت کا جشن مذہبی عقیدت و احترام کے ساتھ منایا گیا۔
ریڈیو پاکستان کی رپورٹ کے مطابق دن کا آغاز وفاقی دارالحکومت میں 31 اور تمام صوبائی دارالحکومت میں 21 ،21 توپوں کی سلامی سے ہوا۔
مساجد میں نماز فجر کی ادائیگی کے بعد مسلم اُمہ کے اتحاد اور ملک کی ترقی و خوش حالی کے لیے خصوصی دعائیں مانگی گئیں۔
نبی آخر الزمانﷺ کی حیات مبارکہ اور تعلیمات پوری انسانیت کے لیے مینارہ نور ہیں، آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو ہدیہ عقیدت پیش کرنے کے لیے خصوصی کانفرنسز تقریبات اور محفل میلاد منعقد کی گئیں۔
اس مبارک موقع پر عمارتوں، گلیوں، شاہراہوں، مساجد اور گھروں کو برقی قمقوں سے سجایا گیا تھا۔
اس موقع پر صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے بیان میں نبی اکرم ﷺ کی زندگی و سیرت اور ان کی تعلیمات پر غور کرنے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ بحیثیت قوم ہم پر لازم ہے کہ ہم اپنی روزمرہ کی زندگی میں ان اقدار کو قائم کریں اور ایسے ماحول کو فروغ دیں جہاں ہر فرد کی عزت اور حقوق محفوظ ہوں۔
انہوں نے کہا کہ حضرت محمد رسول اللہ خاتم النبیین ﷺ کی ولادتِ باسعادت تمام جہانوں کے لیے ایک عظیم اور مبارک ترین نعمت ہے، آپ ﷺ کی بدولت انسانیت اللہ تعالیٰ کی جانب سے ہدایت کے انعام اور رحمت سے سرفراز ہوئی۔
ان کا کہنا تھا کہ حضرت محمد ﷺ کو تمام جہانوں کے لیے رحمت بنا کر بھیجا گیا اور آپﷺ کی زندگی اللہ تعالیٰ کی اطاعت، عدل و انصاف اور انسانوں کی جانب شفقت و محبت کی مجسم تصویر ہے، آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی تعلیمات ہمہ گیر اور آفاقی ہیں اور انسانیت کے لیے رہنمائی کا لازوال ذریعہ ہیں، آپؐ کی تعلیمات دور حاضر سمیت رہتی دنیا تک درپیش بے شمار چیلنجز کا حل پیش کرتی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ کی سیرتِ طیبہ میں ہمیں نہ صرف ایمان و عبادات بلکہ تمام شعبہ ہائے زندگی سے متعلق ایک کامل نمونہ ملتا ہے۔
صدر مملکت نے کہا کہ اللہ تعالیٰ کی وحدانیت، سماجی انصاف، حقوق العباد، صنفی مساوات اور پسماندہ لوگوں کی فلاح و بہبود کے حوالے سے آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی ہدایات اسلام کے پیغام کی جامعیت اور عالمگیریت کی آئینہ دار ہیں۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان مختلف ثقافتوں اور مذہبی تنوع کا حامل ملک ہے، یہاں اسلام کے علاوہ دیگر ادیان اور مذاہب کے لوگ بھی رہتے ہیں، ہمیں چاہیے کہ ہم اس تنوع کی قدر کریں اور اپنے ہم وطنوں کے درمیان افہام و تفہیم اور اتحاد ویگانگت کے فروغ کے لیے تندہی سے کام کریں۔