بھارت: ریاست منی پور میں پُرتشدد مظاہرے، انٹرنیٹ سروس پر دوبارہ پابندی عائد
بھارت نے ریاست منی پور میں مہینوں تک جاری رہنے والے تنازع کے دوران ہلاک ہونے والے 2 طلبہ کی تصاویر زیرگردش ہونے اور پرتشدد مظاہرے شروع ہونے کے بعد علاقے میں انٹرنیٹ سروس پر دوبارہ پابندی عائد کردی۔
خبر رساں ادارے ’اے ایف پی‘ کی رپورٹ کے مطابق منی پور ریاست میں رواں برس مئی میں اکثریتی ہندو برادری میتی اور عیسائی برادری کوکی کے درمیان مسلح تصادم شروع ہونے کے بعد سے اب تک 150 سے زیادہ افراد ہلاک ہو چکے ہیں، حریف گروہوں کے ملیشیا گروپس کے سبب منی پور ریاست نسلی انتشار کا شکار ہوچکی ہے۔
منی پور میں انٹرنیٹ پر تقریباً 5 ماہ سے جاری پابندی گزشتہ ہفتے ہٹا دی گئی تھی لیکن ریاست کے دارالحکومت امپھال میں پرتشدد مظاہروں کے دوران درجنوں افراد کے زخمی ہونے کے بعد گزشتہ روز یہ پابندی دوبارہ نافذ کر دی گئی۔
مقامی میڈیا کے مطابق گزشتہ روز سوشل میڈیا پر میتی کمیونٹی کی ایک 17 سالہ لڑکی اور ایک 20 سالہ لڑکے کی لاشوں کی تصاویر وائرل ہونے کے بعد سیکڑوں مشتعل طلبہ نے مارچ کیا جس کے بعد پولیس نے ہجوم پر قابو پانے کے لیے آنسو گیس فائر کی، یہ دونوں طلبہ جولائی میں لاپتا ہو گئے تھے۔
بعد ازاں حکومت کی جانب سے جاری ایک حکم نامے میں کہا گیا کہ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کے ذریعے غلط معلومات پھیلنے، جھوٹی افواہوں اور دیگر قسم کی پرتشدد سرگرمیوں کو روکنے کے لیے انٹرنیٹ سروس معطل کردی گئی ہے۔
ریاست منی پور کے وزیر اعلیٰ بیرن سنگھ نے گزشتہ روز ایک بیان میں کہا کہ افسران اموات کی تحقیقات کر رہے ہیں۔
ریاست منی پور میں انتشار کو ختم کرنے میں انتظامیہ کی ناکامی پر بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کو تنقید کا نشانہ بنایا جارہا ہے، اُن کی ہندو قوم پرست جماعت ’بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی)‘ ہی ریاست منی پور میں برسراقتدار ہے۔
’ہیومن رائٹس واچ‘ نے ریاست منی پور کے حکام پر اُن تقسیم پسند پالیسیوں کے ساتھ تنازع کو ہوا دینے کا الزام عائد کیا ہے جو ہندو اکثریت پسندی کو فروغ دیتی ہیں۔
اپوزیشن کانگریس پارٹی کے لیڈر ملکارجن کھرگے نے گزشتہ روز ’ایکس‘ پر ایک پوسٹ میں حکمران جماعت پر منی پور کو ’میدان جنگ‘ بنا دینے کا الزام عائد کیا تھا۔