• KHI: Zuhr 12:18pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:49am Asr 3:24pm
  • ISB: Zuhr 11:54am Asr 3:24pm
  • KHI: Zuhr 12:18pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:49am Asr 3:24pm
  • ISB: Zuhr 11:54am Asr 3:24pm

فیض آباد دھرنا کیس فیصلے کے خلاف پیمرا کی بھی اپنی درخواست واپس لینے کی استدعا

شائع September 27, 2023
فیض آباد انٹرچینج پر ٹی ایل پی نے 5 نومبر 2017 کو دھرنا دیا تھا — فوٹو: اے ایف پی
فیض آباد انٹرچینج پر ٹی ایل پی نے 5 نومبر 2017 کو دھرنا دیا تھا — فوٹو: اے ایف پی

پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی (پیمرا) نے اسلام آباد کے علاقے فیض آباد میں تحریک لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) کے 2017 کے دھرنے پر سپریم کورٹ کے فیصلے کے خلاف نظرثانی کی درخواست واپس لینے کے لیے سپریم کورٹ میں متفرق درخواست دائر کردی۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے چیف جسٹس آف پاکستان (سی جے پی) کی حیثیت سے حلف اٹھانے سے کئی برس قبل اپنے فیصلے میں وزارت دفاع اور تینوں افواج کے سربراہان کو ہدایت کی تھی کہ وہ اپنے حلف کی خلاف ورزی کرتے ہوئے پائے گئے اپنی کمانڈ کے اہلکاروں کو سزا دیں۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے وفاقی حکومت کو نفرت، انتہا پسندی اور دہشت گردی کی وکالت کرنے والوں کی نگرانی کرنے اور ان کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی کرنے کی بھی ہدایت کی تھی جہاں 2017 میں 20 روزہ دھرنے کے باعث اسلام آباد اور راولپنڈی میں زندگی مفلوج ہونے اور عوام کو تکلیف پہنچانے پر متعدد سرکاری محکموں کے خلاف بھی منفی شواہد پائے گئے تھے۔

سپریم کورٹ نے نومبر 2018 میں فیض آباد دھرنے سے متعلق ازخود نوٹس لیا تھا اور بعد ازاں اس وقت جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس مشیر عالم پر مشتمل دو رکنی بینچ نے فروری 2019 میں کیس کا تفصیلی فیصلہ سنایا تھا۔

بعد ازاں اپریل 2019 میں وزارت دفاع کے توسط سے اس وقت کی وفاقی حکومت، انٹیلی جینس بیورو (آئی بی)، انٹروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی)، پاکستان الیکٹرونک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی (پیمرا)، الیکشن کمیشن آف پاکستان، پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی)، متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) پاکستان، عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید احمد اور اعجاز الحق کی جانب سے سپریم کورٹ میں فیصلے پر نظرثانی کے لیے درخواستیں دائر کی گئی تھیں۔

تاہم اب سماعت سے ایک روز قبل پیمرا نے اب فیصلے پر نظرثانی کی درخواست واپس لینے کے لیے عدالت عظمیٰ سے رجوع کرلیا ہے جب کہ گزشتہ روز انٹیلی جنس بیورو (آئی بی) نے فیصلے پر نظرثانی کی درخواست واپس لینے کے لیے سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی تھی۔

پیمرا نے نظر ثانی درخواست واپس لینے کی متفرق درخواست میں مؤقف اپنایا ہے کہ فیض آباد دھرنا فیصلے کے خلاف نظر ثانی زیر التوا ہیں، سپریم کورٹ میں نظر ثانی درخواست پر 28 ستمبر کو سماعت مقرر ہے، پیمرا نظر ثانی درخواست کی پیروی نہیں کرناچاہتا۔

درخواست میں استدعا کی گئی ہے کہ پیمرا کی متفرق درخوست منظور کی جائے، فیصلے کے خلاف نظر ثانی واپس لینے کی اجازت دی جائے۔

یاد رہے کہ گزشتہ روز سپریم کورٹ میں نظرثانی کی درخواست دینے والے ایک اور فریق شیخ رشید کے وکیل امان اللہ کنرانی نے مقدمے کی سماعت ملتوی کرنے کے لیے سپریم کورٹ میں درخواست دائر کرتے ہوئے عدالت عظمیٰ سے استدعا کی تھی کہ 28 ستمبر کو مقرر مقدمے کی سماعت ملتوی کردی جائے۔

گزشتہ ہفتے سپریم کورٹ میں فیض آباد دھرنا کیس کے فیصلے کے خلاف دائر پاکستان تحریک انصاف، وزارت دفاع، عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید اور دیگر کی نظر ثانی کی درخواستیں سماعت کے لیے 28 ستمبر کو مقرر کردی گئی تھیں۔

سپریم کورٹ سے جاری کاز لسٹ میں بتایا گیا تھا کہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں جسٹس امین الدین خان اور جسٹس اطہر من اللہ پر مشتمل تین رکنی بینچ فیض آباد دھرنا کیس کے فیصلے کے خلاف نظرثانی کی درخواستوں پر 28 ستمبر کو سماعت کرے گا۔

فیض آباد دھرنا

یاد رہے کہ اسلام آباد اور راولپنڈی کے سنگم پر واقع فیض آباد انٹرچینج پر مذہبی جماعت ٹی ایل پی نے ختم نبوت کے حلف نامے میں متنازع ترمیم کے خلاف 5 نومبر 2017 کو دھرنا دیا تھا۔

حکومت نے مذاکرات کے ذریعے دھرنا پرامن طور پر ختم کرانے کی کوششوں میں ناکامی اور اسلام آباد ہائی کورٹ کی جانب سے فیض آباد خالی کرانے کے حکم کے بعد دھرنا مظاہرین کے خلاف 25 نومبر کو آپریشن کیا تھا، جس میں سیکیورٹی اہلکاروں سمیت 100 سے زائد افراد زخمی ہوئے تھے۔

اس دھرنے کے نتیجے میں وفاقی دارالحکومت میں نظام زندگی متاثر ہوگیا تھا جبکہ آپریشن کے بعد مذہبی جماعت کی حمایت میں ملک کے مختلف شہروں میں احتجاج اور مظاہرے شروع ہوگئے تھے اور عوام کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا تھا۔

27 نومبر 2017 کو حکومت نے اس وقت کے وزیر قانون زاہد حامد کے استعفے سمیت اسلام آباد دھرنے کے شرکا کے تمام مطالبات تسلیم کر لیے تھے، جس میں دوران آپریشن گرفتار کیے گئے کارکنوں کی رہائی کا مطالبہ بھی شامل تھا۔

بعد ازاں عدالت عظمیٰ نے ایک کیس کی سماعت کے دوران فیض آباد دھرنے کا معاملہ زیر بحث آنے پر اس پر نوٹس لیا تھا اور متعلقہ اداروں سے جواب مانگا تھا۔

کارٹون

کارٹون : 22 نومبر 2024
کارٹون : 21 نومبر 2024