• KHI: Zuhr 12:32pm Asr 4:14pm
  • LHR: Zuhr 12:02pm Asr 3:28pm
  • ISB: Zuhr 12:08pm Asr 3:27pm
  • KHI: Zuhr 12:32pm Asr 4:14pm
  • LHR: Zuhr 12:02pm Asr 3:28pm
  • ISB: Zuhr 12:08pm Asr 3:27pm

جنرل مارک ملی امریکی فوج کو سیاست میں دھکیلنے کے الزام پر نالاں

شائع September 26, 2023
جنرل مارک ملی نے یکم جون 2020 کو اس وقت کے صدر ٹرمپ کے ساتھ دورے پر گئے تھے—فوٹو: اے ایف پی
جنرل مارک ملی نے یکم جون 2020 کو اس وقت کے صدر ٹرمپ کے ساتھ دورے پر گئے تھے—فوٹو: اے ایف پی

امریکا کے جنرل مارک ملی کو بطور اعلیٰ فوجی عہدیدار اپنے دور میں اندرونی اور بیرونی دونوں محاذوں پر مسلسل بحرانوں کا سامنا رہا اور وہ تاریخ میں اس عہدے پر رہنے والی شخصیات میں مشہور اور متنازع بن گئے ہیں۔

ڈان اخبار میں شائع غیرملکی خبرایجنسی اے ایف پی کی رپورٹ میں کہا گیا کہ روس کا یوکرین پر حملہ، امریکا کا افغانستان سے انخلا، ڈونلڈ ٹرمپ کا صدارتی انتخاب میں اپنی شکست ماننے سے انکار اور پولیس کے تشدد کے خلاف ملک گیر احتجاج بطور چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف ان کے دور کے اہم واقعات ہیں اور ان کا دورہ جمعے کو ختم ہو رہا ہے۔

جنرل مارک ملی نے گزشتہ ماہ ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ ’ہم ایک کے بعد ایک بحران کا شکار رہے، جس کی وجہ سے ہماری تمام توجہ انہی واقعات پر مرکوز رہی جسے میں کرنٹ آپریشنز کہتا ہوں‘۔

ان کا کہنا تھا کہ ’میرے لیے سب سے بڑا امتحان یہ تھا کہ میں درکار وقت نہیں دے پایا، جس کے باعث فوج کو اصلاحات اور جدت نہیں دے سکا‘۔

امریکی فوج کے 65 سالہ جنرل مارک ملی نے 1980 میں فوجی افسر کے طور پر کمیشن حاصل کیا اورانہوں عراق، افغانستان، پاناما اور ہیٹی میں بھی اپنے فرائض سر انجام دیے، 2019 میں چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف مقرر ہونے سے پہلے وہ چیف آف اسٹاف کے عہدے پر فائز رہے۔

بےگناہی کی پکار

جنرل مارک ملی بطور سی جے سی ایس اپنے عہدے کے پہلے ہی سال توجہ کا مرکز بن گئے تھے جب انہیں ڈونلڈ ٹرمپ اور جون 2020 میں وائٹ ہاوس کے چند ارکین کے ساتھ سینٹ جونز ایپسکوپل چرچ کے سامنے بائبل ہاتھ میں تھامے تصویر بنوانے پر خاصی تنقید کا سامنا کرنا پڑا جو کہ ڈونلڈ ٹرمپ کا سیاسی عمل قرار دیا گیا تھا۔

ان کے اس اقدام سے پہلے پولیس اور نیشنل گارڈ کے اہلکاروں نے منی سوٹا میں پولیس کی فائرنگ سے سیاہ فام شہری جارج فلائیڈ کے قتل خلاف مظاہرہ کرنے والوں پر آنسو گیس اور زہریلا مواد برسایا تھا۔

جنرل ملی نے بعد ازاں کہا تھا کہ ’مجھے وہاں نہیں ہونا چاہیے تھا، میرے اس وقت اس جگہ پر ہونے سے فوج کا اندرونی سیاست میں مداخلت کا تاثر پیدا ہوا‘۔

ان کا ٹرمپ انتظامیہ سے بھی اس بات پر جھگڑا رہا جب ٹرمپ نے 2020 کے صدارتی انتخاب میں اپنی شکست تسلیم کرنے سے انکار کیا تھا۔

بقول مارک ملی 2020 کے انتخاب سے پہلے اور بعد میں چین کے ساتھ دونوں ممالک کے درمیان اسٹریٹجک استحکام برقرار رکھنے کے لیے یقین دہانی سے آگاہ کرنا ان کے فرائض میں شامل رہا لیکن ریپبلکنز نے ان پر سویلین طاقت کمزور کرنے کی سازش کا الزام لگایا اور ان کو بر طرف کرنے کی ناکام کوشش بھی کی۔

مارک ملی بہت سے امریکن روشن خیال افراد میں مقبول بھی ہیں اور ان کا مؤقف ہے کہ انہوں نے ملک کو ڈونلڈ ٹرمپ سے بچانے میں مدد کی ہے۔ .

رپورٹ کے مطابق وہ متعدد کنزرویٹوز کی نظر میں سخت ناپسندیدہ ہیں، بشمول ٹرمپ، جنہوں نے حال ہی میں کہا تھا کہ ملی کی ریٹائرمنٹ امریکا کے تمام شہریوں کے لیے جشن کا سماں ہوگا۔

جنرل ملی نے 2021 میں قانون سازوں سے کہا تھا کہ ان پر یہ الزام عائد کیا جاتا ہے کہ انہوں نے فوج کو سیاست میں گھسیٹا جبکہ انہوں نے تو فوج کو غیر سیاسی کرنے کی سر توڑ کوششیں کی۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ میری نظر میں یہ ایک سوچی سمجھی کوشش ہے تاکہ فوج کا ایک جنرل افسر، فوج کی قیادت اور فوج کو سیاست میں دھکیلا جائے۔

ان کے کیرئیر کا ایک اور بڑا واقعہ امریکی افواج کا افغانستان سے انخلا تھا، جس کے بعد طالبان جنگجوؤں نے مغربی تربیت یافتہ افغان فوجیوں کو ایک طرف دھکیل دیا اور افغانستان پر قبضہ کرلیا تھا جس کے نتیجے میں آخری امریکی فوجی کو جلد بازی میں افغانستان کی سرزمین کو خیر باد کہنا پڑا تھا۔

کارٹون

کارٹون : 24 دسمبر 2024
کارٹون : 23 دسمبر 2024