چیئرمین پی ٹی آئی کو عدالت کے حکم پر اٹک سے اڈیالہ جیل منتقل کردیا گیا
پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی)کے چیئرمین عمران خان کو اسلام آباد ہائی کورٹ کے احکامت پر اٹک جیل سے راولپنڈی کی اڈیالہ جیل منتقل کردیا گیا، جو توشہ خانہ کیس میں 3 سالہ قید کی سزا میں ضمانت پر رہائی کے احکامات کے بعد سائفر کیس پر گرفتار ہیں۔
اڈیالہ جیل کے سپرنٹنڈنٹ اسد وڑائچ نے تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ سابق وزیراعظم عمران خان کو جیل پہنچ گئے ہیں، اڈیالہ جیل کے اطراف کی سیکیورٹی سخت کردی گئی ہے۔
اسد وڑائچ نے کہا کہ عمران خان کو جیل مینوئل کے مطابق سہولیات فراہم کی جائیں گی۔
سماجی رابطے کی ویب سائٹ ایکس پر پی ٹی آئی نے ایک ویڈیو جاری کی، جس میں دیکھا جاسکتا ہے کہ پارٹی کے کارکنان کو اسلام آباد ٹول پلازہ کے قریب پولیس کی سیکیورٹی میں جانے والے عمران خان کی گاڑی پر پھول کی پتیاں نچھاور کی گئیں۔
عمران خان کو اٹک جیل سے اڈیالہ منتقلی اسلام آباد ہائی کورٹ کے احکامات کے ایک روزہ بعد کی گئی ہے جہاں عدالت نے عمران خان کی جانب سے راولپنڈی منتقلی کی درخواست پر سماعت کی تھی۔
عدالت نے کہا تھا کہ وفاقی دارالحکومت کی عدالتوں میں زیر ٹرائل تمام قیدیوں کو اڈیالہ جیل میں رکھا جاتا ہے اور چیئرمین پی ٹی آئی کو مذکورہ جیل منتقل کرنے کا حکم دیا تھا۔
قبل ازیں چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ عامر فاروق نے عمران خان کی اڈیالہ جیل منتقلی کا تحریری حکم نامہ جاری کر دیا تھا۔
تحریری حکم نامے میں کہا گیا تھا کہ چیئرمین پی ٹی آئی کے اٹک جیل منتقلی کے تمام احکامات اور نوٹیفکیشن کالعدم قرار دیے جاتے ہیں، اُن کو فوری سینٹرل جیل اڈیالہ راولپنڈی منتقل کیا جائے اور جیل میں بہتر کیٹگری کی سہولیات فراہم کی جائیں۔
عدالت کی جانب سے کہا گیا کہ چیئرمین پی ٹی آئی کے وکیل نے انہیں جیل میں ورزش کی مشینیں فراہم کرنے کی درخواست کی تھی، عدالت ورزش کی مشینیں فراہم کرنے کے احکامات جاری نہیں کرسکتی۔
تحریری حکم نامے میں کہا گیا کہ چیئرمین پی ٹی آئی کا اسٹیٹس ایک انڈر ٹرائل قیدی کا ہے، اسلام آباد کی عدالتوں میں انڈر ٹرائل تمام قیدیوں کو اڈیالہ جیل میں رکھا جاتا ہے، حکومت پنجاب کو انڈر ٹرائل قیدیوں کی دوسری جیل منتقلی کا اختیار نہیں۔
عدالت کی جانب سے واضح کیا گیا کہ صرف سزا سنائے جانے کے بعد حکومتِ پنجاب قیدیوں کو دوسری جیل منتقل کرنے کا اختیار رکھتی ہے، چیئرمین پی ٹی آئی کو اٹک جیل میں رکھنے کی کوئی معقول وضاحت پیش نہیں کی گئی۔
عمران خان، شاہ محمود قریشی کے ریمانڈ میں 10 اکتوبر تک توسیع
سائفر کیس میں سابق وزیر اعظم اور چیئرمین پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) عمران خان اور وائس چیئرمین شاہ محمود قریشی کے جوڈیشل ریمانڈ میں 10 اکتوبر تک توسیع دے دی گئی۔
چیئرمین پی ٹی آئی کے خلاف سائفر کیس کی اِن کیمرا سماعت اٹک جیل میں آفیشل سیکرٹ ایکٹ عدالت کے جج ابوالحسنات ذوالقرنین نے کی۔
سائفر کیس میں چیئرمین پی ٹی آئی کا جوڈیشل ریمانڈ آج مکمل ہونے پر اٹک جیل میں سماعت ہوئی، وزارت قانون نے گزشتہ روز اٹک جیل میں سائفر کیس کی سماعت کے لیے این او سی جاری کیا تھا، این او سی کی کاپی سپرنٹنڈنٹ اٹک جیل کو بھی بھجوائی گئی تھی۔
چیئرمین پی ٹی آئی کے وکلا بیرسٹر سلمان صفدر، عمیر نیازی، لطیف کھوسہ اور نعیم پنجوتھا بھی اٹک جیل پہنچ گئے جبکہ ایف آئی اے کی ٹیم بھی اٹک جیل پہنچ گئی، اس موقع پر اٹک جیل کے باہر سیکیورٹی کے سخت انتظامات کیے گئے۔
بعد ازاں لطیف کھوسہ نے تصدیق کی کہ عدالت نے فریقین کے دلائل سننے کے بعد سائفر کیس میں چیئرمین پی ٹی آئی کے جوڈیشل ریمانڈ میں 10 اکتوبر تک توسیع دے دی۔
شاہ محمود قریشی کے ریمانڈ میں توسیع
دریں اثنا سائفر کیس جوڈیشل ریمانڈ مکمل ہونے پر شاہ محمود قریشی کو جوڈیشل کمپلیکس میں پیش کیا گیا، پی ٹی آئی وکلا، اسپیشل پراسیکیوٹرز اور ایف آئی اے کی ٹیم بھی عدالت پہنچی۔
عدالتی عملے نے شاہ محمود قریشی کی حاضری لگائی،جس کے بعد شاہ محمود قریشی کو آگاہ کیا گیا کہ اُن کے جوڈیشل ریمانڈ میں بھی 10 اکتوبر تک توسیع کر دی گئی ہے۔
اس موقع پر شاہ محمود قریشی نے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ نیت صاف ہے، من صاف ہے، بے قصور ہیں، اللہ بے نیاز ہے، وہ جب چاہے دل بدل سکتا ہے، وہ جب چاہے فیصلے پلٹ سکتا ہے، پھر بھی اے عدل و انصاف تجھ سے امید پا رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اگر پی ٹی آئی کو الیکشن نہ لڑنے دیا گیا تو الیکشن بے معنی ہو جائے گا، بے وقعت ہو جائے گا، الیکشن کی اہمیت ختم ہو جائے گی، پی ٹی آئی کے بغیر الیکشن کی اہمیت نہ ہونے کے برابر ہے۔
پس منظر
یاد رہے کہ 14 ستمبر کو اسلام آباد کی خصوصی عدالت نے سفارتی سائفر سے متعلق آفیشل سیکرٹ ایکٹ 1923 کے تحت درج مقدمے میں عمران خان اور پارٹی کے وائس چیئرمین شاہ محمود قریشی کی درخواست ضمانت بعد از گرفتاری مسترد جب کہ سابق وفاقی وزیر اور پی ٹی آئی کے سینئر رہنما اسد عمر کی ضمانت قبل از گرفتاری منظور کرلی تھی۔
یہ کیس سفارتی دستاویز سے متعلق ہے، جو مبینہ طور پر عمران خان کے قبضے سے غائب ہو گئی تھی، اسی کیس میں چیئرمین پی ٹی آئی اور وائس چیئرمین پی ٹی آئی جوڈیشل ریمانڈ پر جیل میں ہیں۔
پی ٹی آئی کا الزام ہے کہ اس سائفر میں عمران خان کو اقتدار سے ہٹانے کے لیے امریکا کی جانب سے دھمکی دی گئی تھی، پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان اور وائس چیئرمین شاہ محمود قریشی بھی اسی کیس میں ریمانڈ پر ہیں۔
ایف آئی اے کی جانب سے درج فرسٹ انفارمیشن رپورٹ (ایف آئی آر) میں شاہ محمود قریشی کو نامزد کیا گیا اور آفیشل سیکرٹ ایکٹ کی دفعات 5 (معلومات کا غلط استعمال) اور 9 کے ساتھ تعزیرات پاکستان کے سیکشن 34 کے تحت مقدمہ درج کیا گیا۔
ایف آئی آر میں 7 مارچ 2022 کو اس وقت کے سیکریٹری خارجہ کو واشنگٹن سے سفارتی سائفر موصول ہوا، 5 اکتوبر 2022 کو ایف آئی اے کے شعبہ انسداد دہشت گردی میں مقدمہ درج کیا گیا تھا، جس میں سابق وزیر اعظم عمران خان، شاہ محمود قریشی اور اسد عمر اور ان کے معاونین کو سائفر میں موجود معلومات کے حقائق توڑ مروڑ کر پیش کرکے قومی سلامتی کو خطرے میں ڈال کر اپنے ذاتی مفاد کے حصول کی کوشش پر نامزد کیا گیا تھا۔
اس میں کہا گیا کہ سابق وزیراعظم عمران خان، سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی اور ان کے معاونین خفیہ کلاسیفائیڈ دستاویز کی معلومات غیر مجاز افراد کو فراہم کرنے میں ملوث تھے۔
سائفر کے حوالے سے کہا گیا کہ ’انہوں نے بنی گالا (عمران خان کی رہائش گاہ) میں 28 مارچ 2022 کو خفیہ اجلاس منعقد کیا تاکہ اپنے مذموم مقصد کی تکمیل کے لیے سائفر کے جزیات کا غلط استعمال کرکے سازش تیار کی جائے‘۔
مقدمے میں کہا گیا کہ ’ملزم عمران خان نے غلط ارادے کے ساتھ اس کے وقت اپنے پرنسپل سیکریٹری محمد اعظم خان کو اس خفیہ اجلاس میں سائفر کا متن قومی سلامتی کی قیمت پر اپنے ذاتی مفاد کے لیے تبدیل کرتے ہوئے منٹس تیار کرنے کی ہدایت کی‘۔
ایف آئی آر میں الزام عائد کیا گیا کہ وزیراعظم آفس کو بھیجی گئی سائفر کی کاپی اس وقت کے وزیر اعظم عمران خان نے جان بوجھ کر غلط ارادے کے ساتھ اپنے پاس رکھی اور وزارت خارجہ امور کو کبھی واپس نہیں کی۔
مزید بتایا گیا کہ ’مذکورہ سائفر (کلاسیفائیڈ خفیہ دستاویز) تاحال غیر قانونی طور پر عمران خان کے قبضے میں ہے، نامزد شخص کی جانب سے سائفر ٹیلی گرام کا غیر مجاز حصول اور غلط استعمال سے ریاست کا پورا سائفر سیکیورٹی نظام اور بیرون ملک پاکستانی مشنز کے خفیہ پیغام رسانی کا طریقہ کار کمپرومائز ہوا ہے‘۔
ایف آئی آر میں کہا گیا کہ ’ملزم کے اقدامات سے بالواسطہ یا بلاواسطہ بیرونی طاقتوں کو فائدہ پہنچا اور اس سے ریاست پاکستان کو نقصان ہوا‘۔
ایف آئی اے میں درج مقدمے میں مزید کہا گیا کہ ’مجاز اتھارٹی نے مقدمے کے اندراج کی منظوری دے دی، اسی لیے ایف آئی اے انسداد دہشت گردی ونگ اسلام آباد پولیس اسٹیشن میں آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے سیکشن 5 اور 9 کے تحت تعزیرات پاکستان کی سیکشن 34 ساتھ مقدمہ سابق وزیراعظم عمران خان اور سابق وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی کے خلاف آفیشنل خفیہ معلومات کا غلط استعمال اور سائفر ٹیلی گرام (آفیشل خفیہ دستاویز)کا بدنیتی کے تحت غیرقانونی حصول پر درج کیا گیا ہے اور اعظم خان کا بطور پرنسپل سیکریٹری، سابق وفاقی وزیر اسد عمر اور دیگر ملوث معاونین کے کردار کا تعین تفتیش کے دوران کیا جائے گا‘۔