ڈالر کی قدر میں کمی کے باوجود اسمبلرز کا گاڑیوں کی قیمتوں میں کمی سے گریز
روپے کی قدر میں اضافہ اور ڈالر کی قیمت کو جلد ہی 260 یا 250 روپے تک لانے کے حکومتی ارادے کے باوجود آٹو اسمبلرز اس کا فائدہ صارفین تک پہنچانے میں ہچکچا رہے ہیں۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق اسمبلرز سے رابطہ کیا گیا کہ وہ مقامی طور پر اسمبل شدہ گاڑیوں کی قیمتوں میں کمی کے کسی بھی امکان کے بارے میں اپنا نقطہ نظر بتائیں، تو ان کا فوری جواب ’نہیں‘ تھا۔
صارفین نے پی ڈی ایم حکومت کے 16 ماہ کے دور میں گاڑیوں کی قیمتوں میں بھاری اضافہ دیکھا جو کہ اسمبلرز کے مطابق ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں کمی کی وجہ سے درآمدی پرزہ جات کی زیادہ لاگت اور ساتھ ہی بجلی اور گیس کے بھاری چارجز کی وجہ سے ہوا۔
تاہم انٹربینک میں روپے کی قدر میں اضافے نے درآمدی پرزوں کی قیمتوں میں کمی ضرور کی ہوگی یا درآمدی پرزہ جات کی قیمت میں اضافے کے رجحان کو کم ضرور کیا ہوگا لیکن صارفین کو ابھی تک اس کا کوئی فائدہ نظر نہیں آیا۔
رواں ماہ 5 ستمبر کو انٹربینک میں ڈالر 307.10 روپے تک پہنچ گیا تھا جبکہ اِس وقت یہ 291.76 روپے پر ٹریڈ کر رہا ہے، اس کا مطلب ہے کہ بلند ترین سطح پر پہنچنے کے بعد ڈالر کی قدر میں مقامی کرنسی کے مقابلے میں 15 روپے سے زیادہ کمی آچکی ہے۔
اسمبلرز اس سے قبل روپے کی گراوٹ کی وجہ سے صارفین کو قیمتوں میں اضافے کی صورت میں فوری دھچکے دے چکے ہیں، حتیٰ کہ ایل سیز کھلنے کے مسائل اور درآمدی پرزوں کی قلت کے سبب پلانٹس بند بھی کرنے پڑے ہیں۔
انڈس موٹر کمپنی (آئی ایم سی) کے ایک سینیئر عہدیدار نے گاڑیوں کی قیمتوں میں کمی کے امکانات کی تردید کردی، تاہم انہوں نے اس کی کوئی وجہ نہیں بتائی کہ گاڑیوں کی قیمتوں میں کمی کیوں نہیں آسکتی۔
اسی طرح کا جواب ہونڈا اٹلس کارز لمیٹڈ (ایچ اے سی ایل) کے ایک عہدیدار کی طرف سے مؤقف سامنے آیا، لیکن انہوں نے دعویٰ کیا کہ کمپنی نے ڈالر کی قدر میں اضافے کے بعد قیمتوں میں اضافہ نہیں کیا۔
مقامی طور پر اسمبل شدہ کاروں کے مجاز ڈیلرز نے بھی سخت کاروباری ماحول کے پیش نظر قیمتوں میں کمی کا کوئی اشارہ نہیں دیا، گزشتہ سال کے مقابلے میں گاڑیوں کی فروخت میں بھی کمی آئی ہے۔
لکی موٹر کارپوریشن لمیٹڈ (ایل ایم سی ایل) کے ایک ڈیلر نے کہا کہ ابھی تک قیمت میں کوئی کمی نہیں ہوئی ہے، ’کیا‘ گاڑیوں کے اِن اسمبلرز نے 6 ستمبر کو قیمتوں میں ساڑھے 3 لاکھ روپے تک اضافہ کیا تھا۔
ایل ایم سی ایل کے ایک عہدیدار نے کہا کہ اگر روپیہ 280 سے نیچے مستحکم رہتا ہے اور دیگر چیزیں مہنگی نہیں ہوتیں تو گاڑیوں کی قیمتوں میں کمی کے بارے میں سوچ سکتے ہیں۔
ڈائریکٹر پرنس ڈی ایف ایس کے سہیل عثمان نے کہا کہ قیمتوں میں کوئی کمی نہیں آرہی ہے کیونکہ بجلی، مزدوری اور دیگر اخراجات میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔
’موٹر سائیکلیں کی قیمتوں میں کمی کے بھی کوئی آثار نہیں‘
اکبر روڈ استعمال شدہ اور نئی بائیکس کا مرکز سمجھا جاتا ہے، وہاں کے ایک سینیئر مارکیٹ لیڈر محمد صابر شیخ نے کہا کہ بائیکس کی قیمتوں میں کسی قسم کی کمی کے بظاہر کوئی آثار نظر نہیں آرہے کیونکہ اسمبلرز اُس وقت درآمد شدہ پرزے اور کٹس لائے تھے جب ڈالر ریکارڈ بلندی پر پہنچا ہوا تھا۔
رواں ماہ کریک ڈاؤن کے بعد اور ڈالر کی قیمتوں میں کمی کی صورت میں اسمبلرز کو اکتوبر کے آخر تک یا نومبر کے شروع میں 70 سی سی موٹرسائیکل کی قیمتوں میں 8 سے 9 ہزار روپے، 125 سی سی موٹر سائیکل کی قیمت میں 15 ہزار روپے اور 150 سی سی موٹرسائیکل کی قیمت میں 25 ہزار روپے کمی کرکے اس کا فائدہ دینا چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ نئی ایل سیز کم نرخوں پر کھولی جا رہی ہیں اور ڈالر کی قیمت کو مدنظر رکھتے ہوئے ٹیکس بھی وصول کیا جائے گا، اسمبلرز کو خریداروں کو راغب کرنے کے لیے قیمتیں کم کرنی چاہئیں۔