نگران وزیر اعظم کا دورہ امریکا ’بڑی ملاقاتوں‘ کے بغیر اختتام پذیر
امریکی شہر نیویارک میں اقوام متحدہ کے ہیڈکوارٹرز کے 5 روزہ دورے کے اختتام کے بعد نگران وزیراعظم انوارالحق کاکڑ گزشتہ روز لندن روانہ ہوگئے، قیاس آرائیاں جاری ہیں کہ وہاں ان کی سربراہ مسلم لیگ (ن) نواز شریف سے ’خفیہ ملاقات‘ ہو سکتی ہے۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق نیویارک میں جمعہ کی شام ایک نیوز کانفرنس میں انوارالحق کاکڑ نے عندیہ دیا کہ وہ وطن واپس لوٹ رہے ہیں تاکہ الیکشن کمیشن کے ساتھ معاونت کریں اور طویل مدتی تعلقات، مثلاً آئی ایم ایف کے ساتھ نئی شرائط پر بات چیت کی ذمہ داری نئی حکومت کو سنبھالنے دیں۔
نواز شریف سے ممکنہ ملاقات کے بارے میں پوچھے جانے پر انہوں نے کوئی جواب نہیں دیا، اکتوبر میں نواز شریف کی پاکستان واپسی کے بارے میں ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ سابق وزیراعظم کے ساتھ پاکستان کے قوانین کے مطابق سلوک کیا جائے گا۔
نگران وزیر اعظم نے اس سوال کا بھی جواب نہیں دیا کہ کیا وہ پاکستان واپس جاتے ہوئے سعودی عرب کا دورہ کریں گے۔
سرکاری ذرائع نے بتایا کہ انوار الحق کاکڑ نیویارک جاتے ہوئے پیرس میں رکے اور اپنے اہل خانہ کے ساتھ ایفل ٹاور کا دورہ کیا، انہوں نے نیویارک میں اپنے خاندان اور دوستوں کے ساتھ کچھ پرسکون وقت بھی گزارا اور انہیں جمعرات کی رات ایک ترک ریسٹورنٹ میں کھانا کھاتے ہوئے دیکھا گیا۔
دورے کے دوران ان کا شیڈول کافی مصروف رہا، کئی عالمی رہنماؤں سے ملاقاتیں بھی کیں، ترک صدر رجب طیب اردوان سے بھی ملاقات ہونی تھی تاہم یہ ملاقات کسی وجہ سے نہ ہو سکی، علاوہ ازیں انہوں نے امریکی وفد سے بھی علیحدہ طور پر کوئی ملاقات نہیں کی۔
نگران وزیر اعظم کے مطابق انہوں نے امریکا میں کاروباری اداروں سے ملاقات کی جنہوں نے نجکاری اور خصوصی سرمایہ کاری سہولت کونسل کے ذریعے پاکستان کی اقتصادی بحالی کے منصوبوں میں دلچسپی ظاہر کی۔
ایک نگران حکمران کا دورہ عموماً غیرمعمولی اہمیت کا حامل نہیں سمجھا جاتا لیکن نگران وزیراعظم انوار الحق کاکڑ کے اس دورے کی اہمیت اس وقت زیادہ ہو گئی جب کینیڈا نے علی الاعلان بھارت پر اپنی سرزمین پر ایک سکھ رہنما کو قتل کرنے کا الزام لگا دیا۔
انوار الحق کاکڑ نے اس صورتحال پر فوری ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے اسے ’پہلی جنگ عظیم کے بعد اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ‘ قرار دیا۔
انہوں نے کہا کہ یہ کینیڈا کی سرزمین پر ایک ایشیائی ملک کی جانب سے ہونے والا ایک قتل ہے، اس کے اثرات مغربی ممالک پر محسوس ہو رہے ہیں جنہیں اب احساس ہو گیا ہے کہ بھارت اپنی اقلیتوں پر کس طرح ظلم کر رہا ہے۔
جب ایک صحافی نے بھارت میں اقلیتوں پر ظلم و ستم کو بیان کرنے کے لیے لفظ ’نسل کشی‘ کے استعمال پر اعتراض کیا تو نگران وزیراعظم نے کہا کہ نسل کشی ایک موزوں لفظ ہے، اسے نسل کشی نہ کہنا جرم ہوگا۔
انہوں نے کہا کہ جس چیز کا کشمیریوں کو سامنا ہے اسے کسی دوسرے لفظ میں بیان نہیں کیا جاسکتا، وہ وہاں مارے جا رہے ہیں اور ان کا ریپ ہو رہا ہے، میں یہاں بیٹھ کر یہ نہیں سوچ سکتا کہ کیا نسل کشی کا لفظ کسی کے جذبات کو ٹھیس پہنچا سکتا ہے یا نہیں۔
انہوں نے پاکستان کے اندر اسپانسر کیے گئے حملوں سمیت بھارت کو ’نامناسب رویے‘ پر ٹوکنے کے لیے ایک بین الاقوامی اتحاد کی تشکیل پر زور دیا۔
آئی ایم ایف اور پاکستان
انوار الحق کاکڑ نے کہا کہ ان کی اقوام متحدہ کے ہیڈکوارٹرز میں آئی ایم ایف کے حکام سے تفصیلی ملاقات ہوئی ہے، آئی ایم ایف نے ڈالر کی غیر قانونی تجارت کے خلاف نگران حکومت کے اقدامات کو بہت سراہا۔
انہوں نے کہا کہ آئی ایم ایف نے کوئی مطالبہ نہیں کیا بلکہ نگران حکومت انہیں اعتماد دے رہی ہے اور معاہدوں کی پاسداری کرے گی۔
پاک-امریکا تعلقات پر روشنی ڈالتے ہوئے انوار الحق کاکڑ نے کہا کہ پاکستان کی ایک خصوصی شناخت ہے اور اسے علاقائی تناظر میں دیکھا جانا چاہیے۔