• KHI: Asr 4:07pm Maghrib 5:43pm
  • LHR: Asr 3:24pm Maghrib 5:01pm
  • ISB: Asr 3:24pm Maghrib 5:01pm
  • KHI: Asr 4:07pm Maghrib 5:43pm
  • LHR: Asr 3:24pm Maghrib 5:01pm
  • ISB: Asr 3:24pm Maghrib 5:01pm

صحافی خالد جمیل دو روزہ جسمانی ریمانڈ پر ایف آئی اے کے حوالے

شائع September 22, 2023
ایف آئی آر میں مزید کہا گیا کہ محمد خالد جمیل سمیت دیگر ملزمان نے ریاستی اداروں کے خلاف ریاست مخالف، اشتعال انگیز اور نفرت انگیز پروپیگنڈا کیا: فوٹو: ایکس
ایف آئی آر میں مزید کہا گیا کہ محمد خالد جمیل سمیت دیگر ملزمان نے ریاستی اداروں کے خلاف ریاست مخالف، اشتعال انگیز اور نفرت انگیز پروپیگنڈا کیا: فوٹو: ایکس

اسلام آباد کی ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن عدالت نے گزشتہ روز گرفتار کیے گئے صحافی محمد خالد جمیل کو دو دن کے لیے وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کی تحویل میں دے دیا۔

ایف آئی اے کے مطابق صحافی محمد خالد جمیل کو سوشل میڈیا پوسٹس کے ذریعے ریاستی اداروں کے خلاف اشتعال انگیز بیانیہ پھیلانے کے الزام میں حراست میں لیا گیا ہے۔

صحافی محمد خالد جمیل کی ایک تصویر بھی سوشل میڈیا پر گردش کر رہی ہے جس میں وہ کاغذ کا ایک ٹکڑا پکڑے ہوئے ہیں جس پر ان کی گرفتاری کیس نمبر لکھا ہوا ہے۔

اے بی این نیوز نے گزشتہ رات سوشل میڈیا پلیٹ فارم ’ایکس‘ پر ایک پیغام جاری کیا تھا، جس میں اس بات کی تصدیق کی گئی تھی کہ صحافی کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔

ایف آئی اے کی جانب سے صحافی کے خلاف درج فرسٹ انفارمیشن رپورٹ (ایف آئی آر) میں کہا گیا ہے کہ صحافی کو سوشل میڈیا پر اشتعال انگیز بیانیہ پھیلانے اور پروپیگنڈہ کرتے ہوئے پایا گیا ہے۔

ایف آئی آر میں الیکٹرونک جرائم کی روک تھام کے ایکٹ (پیکا) کے سیکشن 20 کا حوالہ دیا گیا ہے جس کے مطابق جو شخص جان بوجھ کر اور عوامی سطح پر کسی بھی پلیٹ فارم کے ذریعے معلومات کی تشہیر یا شائع کرتا ہے، جسے وہ سمجھتا ہے کہ جھوٹا ہے اور ساکھ یا رازداری کو نقصان پہنچاتا ہے تو اس شخص کو دو سال تک قید کی سزا ہو سکتی ہے یا 10 لاکھ روپے تک جرمانہ ہو سکتا ہے۔

ایف آئی آر میں تعزیرات پاکستان کی دفعہ 505 بھی شامل کی گئی ہے۔

صحافی کے خلاف درج ایف آئی آر میں کہا گیا ہے کہ ملزم نے جان بوجھ کر غلط، گمراہ کن اور بے بنیاد معلومات شیئر کرکے ریاست مخالف بیانیہ کی غلط تشریح کی، جس سے عوام میں خوف کا بھی خدشہ ہے اور وہ کسی کو بھی ریاست یا ریاستی ادارے کے خلاف جرم کرنے پر اکسا سکتے ہیں۔

ایف آئی آر میں مزید کہا گیا کہ محمد خالد جمیل سمیت دیگر ملزمان نے ریاستی اداروں کے خلاف ریاست مخالف، اشتعال انگیز اور نفرت انگیز پروپیگنڈا کیا، تاہم ایف آئی اے نے مبینہ جرم میں ملوث دیگر افراد کے نام نہیں بتائے۔

ایف آئی اے نے کہا کہ سوشل میڈیا اکاؤنٹس کے ذریعے الزام تراشی اور ایسا خوف ناک مواد جو ریاست پاکستان کو نقصان پہنچانے کے لیے عام لوگوں اور ریاستی اداروں کے درمیان دراڑ پیدا کرنے کے لیے تخریبی کارروائی ہے۔

بیان میں مزید کہا گیا کہ اس طرح کے دھمکی آمیز مواد بشمول ویڈیوز کے ذریعے، ملزم نے عدلیہ سمیت ریاستی اداروں کے خلاف عام لوگوں کو اکسانے کی کوشش کی اور ریاست کے ستونوں کے درمیان بدنیتی کا احساس پیدا کرنے کی کوشش کی۔

ایف آئی اے نے مزید کہا کہ مجاز اتھارٹی نے ایف آئی آر کے اندراج کی اجازت دی ہے اس لیے مقدمہ درج کیا گیا ہے۔

دریں اثنا صحافیوں برادری نے خالد جمیل کی گرفتاری کی شدید مذمت کرتے ہوئے کارروائی کی وضاحت کا مطالبہ کیا ہے۔

صحافی ماریہ میمن نے ایف آئی اے کی جانب سے صحافی کے کیس میں فوری کارروائی پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے آن لائن ہراساں کیے جانے کے دیگر کیسز پر ان کے ردعمل میں عدم مطابقت کو اجاگر کیا۔

صحافی اور کالم نگار نصرت جاوید نے صحافی کی گرفتاری پر سوال اٹھاتے ہوئے کہا کہ حکومت کو نظر بندی کے جواز کے لیے مکمل طور پر معتبر بیانیے کی ضرورت ہے۔

ایک اور صحافی مبشر زیدی نے گرفتاری کے خلاف مذمت کی اور خالد جمیل کی فوری رہائی پر زور دیا۔

کارٹون

کارٹون : 22 نومبر 2024
کارٹون : 21 نومبر 2024