شامی صدر بشار الاسد کا دو دہائیوں بعد دورہ چین
شام کے صدر بشار الاسد تقریباً دو دہائیوں بعد چین کے دورے پر روانہ ہوگئے، جہاں وہ ایک دیرینہ اتحادی سے اپنے تباہ حال ملک کی تعمیر نو میں مدد کے لیے مالی معاونت طلب کریں گے۔
غیر ملکی خبر رساں ایجنسی ’اے ایف پی‘ کے مطابق چین مشرق وسطیٰ سے باہر ان چند ممالک میں سے ہے جن کا بشار الاسد نے 2011 میں خانہ جنگی کے آغاز کے بعد دورہ کیا ہے، جہاں اب تک 5 لاکھ سے زیادہ افراد ہلاک ہوچکے ہیں، اور جس کے نتیجے میں لاکھوں افراد بے گھر اور شام کے انفرااسٹرکچر اور صنعت کو نقصان پہنچا ہے۔
مغرب کی جانب سے تنہا کیے گئے رہنماؤں میں بشار الاسد بھی شامل ہیں جنہیں چین نے نوازا ہے جہاں اس سال وینزویلا کے رہنما نکولس مدورو اور ایران کے صدر ابراہیم رئیسی کے ساتھ ساتھ روس کے اعلیٰ حکام بھی دورہ کر چکے ہیں۔
شامی صدر آج چین کے مشرقی شہر ہانگژو پہنچے، جہاں وہ ہفتہ کو ایشین گیمز کی افتتاحی تقریب میں شرکت کریں گے۔
چین کے سرکاری نشریاتی ادارے ’سی سی ٹی وی‘ کی فوٹیج سے ظاہر ہوتا ہے کہ شامی صدر کے ایئر چائنا کے طیارے کا شاندار موسیقی اور رنگین ملبوسات پہنے فنکاروں کی قطاروں سے استقبال کیا گیا، جہاں چین اور شام کے پرچم لہرائے گئے۔
سی سی ٹی وی نے رپورٹ کیا کہ وہ اور دیگر غیر ملکی رہنما ہانگژو میں چینی صدر شی جن پنگ سے ملاقات کریں گے، شامی ایوان صدر کے مطابق بشار الاسد بیجنگ بھی جائیں گے جہاں 2004 کے بعد ان کا چین کا یہ پہلا دورہ ہوگا۔
چین نے شام کی اور خاص طور پر اقوام متحدہ کے سیکیورٹی کونسل میں ہمیشہ سفارتی محاذ پر معاونت کی ہے۔
دونوں ممالک کے حکام نے بھی کئی سالوں کے دوران دورے کیے ہیں۔
بڑھتی ہوئی موجودگی
خیال رہے کہ شامی صدر کا دورہ ایسے وقت میں ہوا ہے جب چین، مشرق وسطیٰ میں اپنی مصروفیت بڑھا رہا ہے۔
رواں برس بیجنگ نے دیرینہ علاقائی حریف سعودی عرب اور ایران کے تعلقات بحال کرنے کے لیے کلیدی کردار ادا کیا، جس کے بعد دونوں ممالک اپنے اپنے سفارت خانے دوبارہ کھولنے پر راضی ہوگئے۔
اس کے بعد مئی میں سعودی عرب میں ہونے والے سربراہی اجلاس میں شام کی واپسی ہوئی، جس سے ایک دہائی سے زیادہ کی علاقائی تنہائی کا خاتمہ ہوا۔
اس سے قبل 2019 میں اعلیٰ سفارت کار وانگ ژی نے ملک کے اُس وقت کے وزیر خارجہ ولید معلم کو بتایا تھا کہ چین ’شام کی اقتصادی تعمیر نو‘ اور ’دہشت گردی سے نمٹنے‘ کی کوششوں کی بھرپور حمایت کرتا ہے۔
خیال رہے کہ شام میں جنگ اس وقت شروع ہوئی، جب بشار الاسد کی حکومت نے جمہوریت کے حق میں ہونے والے پُرامن مظاہروں پر بدترین تشدد کیا، جو ایک تنازع میں تبدیل ہوگیا۔
بشار الاسد کی حکومت نے تمام مخالفین کو دہشت گرد قرار دیا، جس میں پُرامن مظاہرے، مسلح باغیوں اور جہادی شامل ہیں۔
اقتصادی امداد
حالیہ مہینوں میں چین کو بیلاروس کے رہنما الیگزینڈر لوکاشینکو سے لے کر افغانستان کی طالبان حکومت کے عہدیداروں کے وفد کے لیے ریڈ کارپیٹ بچھاتے ہوئے دیکھا گیا۔
وزیر خارجہ وانگ ژی اس ہفتے ماسکو میں ہیں، جس کو یوکرین میں اپنی جنگ پر مغربی پابندیوں کا سامنا ہے۔
کریمیلن نے کہا کہ رواں برس کے اوائل میں ماسکو میں شی جن پنگ کا استقبال کیا گیا تھا، اب روسی صدر ولادیمیر پیوٹن اکتوبر میں چین کے دورے کا منصوبہ بنا رہے ہیں۔
تجزیہ کاروں کو توقع ہے کہ بشار الاسد کے دورہ چین کی توجہ تعمیر نو کے لیے فنڈز حاصل کرنے پر ہوگی۔
شام نے جنوری 2022 میں چین کے وسیع بیلٹ اینڈ روڈ تجارت اور انفرااسٹرکچر کے اقدام کے لیے دستخط کیے تھے۔
لندن کے چیتھم ہاؤس کے ایک کنسلٹنگ فیلو ہید ہید نے سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ’ایکس‘ پر لکھا کہ اس اجلاس میں توجہ چین کو شام کی معاشی بحالی میں مدد کے لیے قائل کرنے کے گرد ہے۔
انہوں نے نوٹ کیا کہ چین نے 2017 میں شام میں 2 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کا عزم کیا تھا، تاہم اس پر عملدرآمد نہیں ہوسکا۔