امریکا کا علیحدگی پسند سکھ رہنما کے قتل کی تحقیقات میں تعاون کیلئے بھارت پر زور
امریکا نے علیحدگی پسند سکھ رہنما کے قتل کی تحقیقات کے لیے کینیڈا کی حمایت کا اعلان کرتے ہوئے بھارت پر زور دیا ہے کہ وہ تحققیات میں تعاون کرے۔
غیرملکی خبرایجنسی کی رپورٹ کے مطابق وائٹ ہاؤس کی قومی سلامتی کونسل کے ترجمان جان کربی نے سی این این کو انٹرویو میں بتایا کہ ہمارا ماننا ہے کہ درست رویہ مکمل طور پر شفاف اور جامع تحقیقات میں پنہاں ہے تاکہ ہم سب جان سکیں کہ اصل میں کیا ہوا تھا اور ہم اس حوالے سے تعاون کرنے کے لیے بھارت کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ کینیڈا کا الزام انتہائی سنجیدہ ہے اور صدر جوبائیڈن ان الزامات سے آگاہ ہیں۔
کینیڈا کے الزام کی بنیاد سے امریکا کی آگہی سے متعلق ایک سوال پر ان کا کہنا تھا کہ میں یہاں بیان دیتے ہوئے تحقیقات پر اثر انداز ہونے سے بچنے کے لیے احتیاط برتنے کوشش کر رہا ہوں اور یہ کینیڈا پر چھوڑ دیں کہ وہ کیا کہتے ہیں اور وہ کیا مزید جاننے کی کوشش کر رہے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ہم تحقیقات کا احترام کرنا چاہتے ہیں اور یہ ان کی اپنی تفتیش ہے۔
امریکی عہدیدار سے سوال کیا گیا کہ اگر یہ الزام درست ثابت ہوتا ہے کہ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے اس قتل کا حکم دیا تھا تو ممکنہ نتائج کیا ہوسکتے ہیں تو انہوں نے جواب دیا کہ ہم پہلے ہی نتائج پر نہیں جائیں گے، مؤثر تحقیقات ہوں اور ہم سمجھتے ہیں اس کے لیے مکمل شفاف اور جامع ہونے کی ضرورت ہے۔
جان کربی نے کہا کہ ہم جانتے ہیں کہ کینیڈا آخر تک کام کرے گا، ایک مرتبہ پھر ہم بھارت پر اس تحقیقات میں تعاون کے لیے زور دے رہے ہیں، جب ہمارے پاس حقائق ہوں اور نتیجہ ہمارے سامنے ہو تو پھر ہم فیصلہ کرسکتے ہیں اور پھر آپ تجاویز یا اس رویے پر نظر ڈال سکتے ہیں، جس کے بارے میں ہوسکتا ہے آپ کو انتظار ہو۔
امریکی قومی سلامتی کونسل کے ایک اور ترجمان ایڈرین واٹسن نے ان رپورٹس کی تردید کی کہ امریکا نے اس معاملے پر کینیڈا کو مذکورہ الزامات پر سخت ردعمل دیا ہے۔
انہوں نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ایکس پر واشنگٹن پوسٹ کی رپورٹ شیئر کی، جس میں کہا گیا تھا کہ صدر بائیڈن بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کو چین کے مقابلے میں سخت حریف گردانتے ہیں اور وہ کوششیں اب کینیڈا کے الزامات کے بعد مشکلات کا شکار ہوگئی ہیں۔
ایڈرین واٹسن نے ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ کینیڈا کو سخت جواب دینے کی خبریں غلط ہیں، ہم کینیڈا کے ساتھ رابطے میں ہیں اور اس معاملے پر ان کے ساتھ قریبی طور پر مشاورت کر رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ یہ ایک انتہائی سنجیدہ معاملہ ہے اور ہم کینیڈا کے قانون نافذ کرنے والی کوششوں کی حمایت کرتے ہیں، ہم بھارتی حکومت کے ساتھ بھی رابطہ کر رہے ہیں۔
خیال رہے کہ کینیڈا کا یہ الزام جون میں سکھ علیحدگی پسند رہنما ہردیپ سنگھ نجار کے قتل کے حوالے سے ہے، تاہم گزشتہ روز اوٹاوا نے اس معاملے پر بھارت کے اعلیٰ انٹیلی جنس ایجنٹ کو ملک بدر کر دیا تھا۔
ہردیپ سنگھ نجر نے ایک آزاد ریاست خالصتان کی شکل میں سکھوں کے علیحدہ وطن کی حمایت کی تھی اور جولائی 2020 میں بھارت کی طرف سے انہیں دہشت گرد نامزد کیا گیا تھا۔
ورلڈ سکھ آرگنائزیشن آف کینیڈا کے مطابق انہوں نے ان الزامات کی تردید کی تھی۔
گزشتہ روز وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو نے ہاؤس آف کامنز میں ایک ہنگامی بیان میں کہا کہ کینیڈین شہری کے قتل میں کسی غیر ملکی حکومت کا ملوث ہونا ہماری خودمختاری کی ناقابل قبول خلاف ورزی ہے۔
وزیراعظم نے یہ بھی مطالبہ کیا کہ بھارت نے اس قتل کی تحقیقات کی روشنی میں ہونے والے انکشافات کو ’انتہائی سنجیدگی‘ سے نہیں لیا۔
کینیڈا کے فیصلے کے جواب میں بھارت نے بھی گزشتہ روز کینیڈا کے سفارت کار کو ملک چھوڑنے کے لیے 5 دن کا نوٹس دیا تھا۔
بھارت نے کینیڈا کے الزام کو مضحکہ خیز قرار دیتے ہوئے مسترد کیا اور اس کے بجائے کینیڈا سے مطالبہ کیا کہ وہ بھارت مخالف عناصر کے خلاف قانونی کارروائی کرے۔