• KHI: Maghrib 5:43pm Isha 7:03pm
  • LHR: Maghrib 5:01pm Isha 6:26pm
  • ISB: Maghrib 5:02pm Isha 6:29pm
  • KHI: Maghrib 5:43pm Isha 7:03pm
  • LHR: Maghrib 5:01pm Isha 6:26pm
  • ISB: Maghrib 5:02pm Isha 6:29pm

وفاقی شرعی عدالت: خودکشی کو جرم قرار دینے کی دفعہ حذف کرنے کے خلاف درخواست قابل سماعت قرار

شائع September 20, 2023
عدالت نے صدرمملکت، وزیراعظم اور وزارت قانون کو نوٹس جاری کردیا— فوٹو: ویب سائٹ / وفاقی شرعی عدالت
عدالت نے صدرمملکت، وزیراعظم اور وزارت قانون کو نوٹس جاری کردیا— فوٹو: ویب سائٹ / وفاقی شرعی عدالت

وفاقی شرعی عدالت نے خودکشی کو جرم قرار دینے کی دفعہ کو ترمیم کے ذریعے حذف کرنے کا خلاف دائر کی گئی درخواست قابل سماعت قرار دیتے ہوئے صدر مملکت، وزیر اعظم اور وزارت قانون کو نوٹس جاری کردیا۔

وکیل حماد سعید ڈار کی درخواست پر وفاقی شرعی عدالت کے قائم مقام چیف جسٹس خادم حسین شیخ اور جسٹس سید محمد انور نے سماعت کی اور سماعت کا تحریری حکم نامہ جاری کردیا۔

وفاقی شرعی عدالت نے درخواست کو قابل سماعت قرار دیا اور اس حوالے سے صدر مملکت، وزیر اعظم پاکستان اور وزارت قانون کو نوٹسز جاری کر دیے ہیں۔

خودکشی کو جرم قرار دینے کی شق 325 کو پارلیمنٹ کی جانب سے فوجداری قوانین ترمیمی ایکٹ 2022 کے ذریعے حذف کر دیا گیا، یہ ترمیم سینیٹر شہادت اعوان نے ستمبر 2021 میں پیش کی تھی اور مئی 2022 میں سینیٹ اور اکتوبر 2022 میں قومی اسمبلی سے منظور ہوئی تھی۔

صدر مملکت نے دسمبر 2022 میں فوجداری قوانین ترمیمی ایکٹ 2022 کی توثیق کی تھی۔

بل کے ذریعے تعزیرات پاکستان 1860میں خودکشی کی کوشش کی سزا سے متعلق سیکشن 325 کو ختم کردیا گیا تھا۔

مذکورہ سیکشن میں کہا گیا تھا کہ جو خودکشی کی کوشش کرتا ہے یا اس طرح کے جرم کے ارتکاب کے لیے کوئی حرکت کرتا ہے، اس کو ایک سال قید یا جرمانہ یا دونوں سزائیں ہوسکتی ہیں۔

تاہم وکیل حماد سعید ڈار نے تعزیرات پاکستان کی دفعہ 325 حذف کرنے کے خلاف وفاقی شرعی عدالت میں درخواست دائر کی تھی اور مؤقف اپنایا تھا کہ اسلام میں خودکشی حرام قرار دی گئی ہے۔

انہوں نے درخواست میں قرآنی آیات اور احادیث کے متعدد حوالے دیے تھے اور کہا تھا کہ ترمیمی ایکٹ سے پہلے پاکستان کے قانون میں خودکشی جرم تھی۔

درخواست میں کہا گیا تھا کہ زندگی صرف ایک تحفہ ہی نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کی امانت بھی ہے، خودکشی کو بطور جرم حذف کرنا اسلام اور اسلامی تعلیمات کے خلاف ہے۔

حماد سعید ڈار نے وفاقی شرعی عدالت سے استدعا کی تھی کہ عدالت فوجداری قوانین ترمیمی ایکٹ 2022 کو قرآن و سنت کے منافی قرار دے۔

درخواست میں صدر مملکت کے ذریعے وفاق، وزیراعظم کے ذریعے حکومت پاکستان اور سیکریٹری قانون کے ذریعے وزارت قانون کو فریق نامزد کیا گیا ہے۔

وفاقی شرعی عدالت نے درخواست تحریری حکم نامہ جاری کیا اور کہا کہ درخواست پر ابتدائی سماعت منگل کو ہوئی۔

حکم نامے میں کہا گیا کہ ہم اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ درخواست قابل سماعت ہے اور باقاعدہ سماعت کی جائے گی، جس کے لیے فریقین کو نوٹس جاری کیا جا رہا ہے۔

کارٹون

کارٹون : 21 نومبر 2024
کارٹون : 20 نومبر 2024