زیرِحراست بریگیڈیئر کی اہلیہ نے ریلیف کیلئے لاہور ہائیکورٹ سے رجوع کرلیا
ایک حاضر سروس بریگیڈیئر (جو ڈیفنس ہاؤسنگ اتھارٹی کوئٹہ میں ڈائریکٹر رہ چکے ہیں اور مبینہ طور پر فوجی حکام کی تحویل میں ہیں) کی اہلیہ نے لاہور ہائی کورٹ کے راولپنڈی بینچ سے اپنے شوہر کی گرفتاری کو غیر قانونی قرار دینے کی درخواست کی ہے۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق بریگیڈیئر اختر سبحان کی اہلیہ عمیرہ سلیم نے بتایا کہ ان کے شوہر کو 22 جون 2023 کو ملٹری پولیس کی اسپیشل انویسٹی گیشن برانچ کے اہلکاروں نے حراست میں لے لیا تھا۔
کیس 13 ستمبر کو سماعت کے لیے مقرر کیا گیا تھا اور لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس جواد حسن نے مقدمے کی سماعت کے دوران ابتدائی طور پر اعتراض اٹھایا تھا کہ درخواست گزار ہائی کورٹ سے ریلیف نہیں مانگ سکتا کیونکہ آئین کے آرٹیکل 199 (3) کے تحت ہائی کورٹ کو مسلح افواج کے اہلکاروں سے متعلق کیس کی سماعت سے روکا گیا ہے۔
تاہم درخواست گزار کے وکیل ایڈووکیٹ انعام الرحیم نے متعدد کیسز کا حوالہ دیا جن میں اعلیٰ عدالتوں نے ایسی درخواستوں کی سماعت کی اور فوجی حکام کے احکامات کو کالعدم بھی قرار دیا۔
بعدازاں لاہور ہائی کورٹ نے وزارت دفاع اور دیگر مدعا علیہان کو نوٹس جاری کیا اور ان سے جواب طلب کیا اور سماعت 14 ستمبر تک ملتوی کر دی کیونکہ یہ ایک حٰبس بےجا کی درخواست تھی، تاہم تحریری حکم نامے میں اگلی سماعت کی تاریخ 6 اکتوبر بتائی گئی۔
درخواست گزار نے گزشتہ روز ایک اور درخواست دائر کرتے ہوئے کیس کی جلد سماعت کا مطالبہ کیا، انہوں نے پاکستان آرمی ایکٹ 1952 کے سیکشن 74 اور 75 کا حوالہ دیا اور دعویٰ کیا کہ بریگیڈیئر اختر سبحان کی گرفتاری اور حراست میں رکھا جانا غیر قانونی ہے۔
درخواست میں کہا گیا کہ حبس بےجا کے قانونی معاملے میں ثبوت کی ذمہ داری ہمیشہ زیر حراست رکھنے والے اتھارٹی پر ہوتی ہے تاکہ یہ ثابت کیا جا سکے کہ نظر بندی قانونی ہے۔
درخواست میں عدالت سے استدعا کی گئی کہ کیس کا جلد از جلد فیصلہ کیا جائے، لاہور ہائی کورٹ کا راولپنڈی بینچ آج درخواست کی سماعت کرے گا۔