سارہ شریف قتل کیس: پاکستانی نژاد تین برطانوی آئندہ سال ٹرائل کا سامنا کریں گے
رواں ماہ کے آغاز میں برطانیہ میں اپنے گھر سے مردہ حالت میں برآمد 10 سالہ بچی سارہ شریف کے قتل کے مقدمے میں اس کے والد سمیت تینوں ملزمان آئندہ سال سے ٹرائل کا سامنا کریں گے۔
خبر ایجنسی اے ایف پی کی رپورٹ کے مطابق سارہ شریف کی لاش 10 اگست کو جنوبی انگلینڈ کے شہر ووکنگ کے قریب واقع خاندانی گھر سے ملی تھی اور جس دن یہ لاش ملی تھی، اسی دن ان کے والد عرفان شریف اسلام آباد پہنچے تھے۔
سرکاری عہدیداروں نے بتایا تھا کہ صبح سویرے افسران کو ایک ہنگامی کال موصول ہوئی تھی جس میں افسران کو سارہ کی موت سے آگاہ کیا گیا تھا اور کال کرنے والے نے اپنی شناخت لڑکی کے والد کے طور پر کرائی تھی۔
برطانیہ میں ملزمان کا گھر خالی تھا، جس کے بعد انٹرپول اور برطانیہ کی وزارت خارجہ نے پاکستان میں حکام کے ساتھ مل کر ملزمان کی تلاش کے لیے چھاپے مارے تھے۔
41 سالہ ٹیکسی ڈرائیور ملک عرفان شریف اپنی 29 سالہ بیوی بنیش بتول، اپنے بھائی 28 سالہ فیصل ملک اور دیگر پانچ بچوں سمیت پاکستان روانہ ہو گئے تھے۔
برطانوی عدالت میں تینوں ملزمان پر سارہ کے قتل کی فرد جرم عائد کردی گئی اور وہ منگل کو لندن کی اولڈ بیلی عدالت کے جج کے سامنے ویڈیو لنک کے ذریعے پیش ہوئے۔
جن تینوں افراد پر لڑکی کی موت کا سبب بننے یا اس کی اجازت دینے کا الزام لگایا گیا ہے، انہیں گزشتہ ہفتے پاکستان میں ایک ماہ گزارنے کے بعد دبئی سےگرفتار کیا گیا تھا۔
پوسٹ مارٹم کے معائنے میں پتا چلا کہ سارہ کو طویل عرصے کے دوران متعدد اور کافی چوٹیں آئی ہیں۔
منگل کو ہونے والی سماعت کے دوران تینوں نے صرف اپنے نام اور پتے کی تصدیق کی اور یکم دسمبر کو مقدمے کی اگلی سماعت تک انہیں حراست میں لے لیا گیا ہے۔
امکان ہے کہ مقدمے کی سماعت 2 ستمبر 2024 کو شروع ہو گی اور چھ ہفتے تک چلے گی۔