افغانستان: ’مشنری سرگرمیوں‘ میں ملوث ہونے کے الزام پر بین الاقوامی این جی او کے 18 ملازم گرفتار
افغانستان کے طالبان حکام نے ایک بین الاقوامی غیر سرکاری فلاحی تنظیم (این جی او) کے تقریباً 18 ملازمین کو ’عیسائی مشنری سرگرمیوں‘ میں ملوث ہونے کا الزام عائد کرتے ہوئے گرفتار کر لیا، ان 18 افراد میں ایک امریکی خاتون بھی شامل ہیں۔
ڈان اخبار میں شائع خبر رساں ادارے ’اے ایف پی‘ کی رپورٹ کے مطابق 1966 سے افغانستان میں فعال تنظیم ’بین الاقوامی امدادی مشن (آئی اے ایم)‘ نے تصدیق کی ہے کہ اس کے عملے کو وسطی افغانستان کے صوبہ غور میں واقع اس کے دفتر سے گرفتار کرکے دارالحکومت کابل لے جایا گیا ہے۔
صوبہ غور کے حکومتی ترجمان عبدالواحد حماس غوری نے بتایا کہ سیکیورٹی اور انٹیلی جنس فورسز کچھ عرصے سے اس گروپ پر نظر رکھے ہوئے تھیں، حاصل کردہ دستاویزات اور آڈیوز سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ عملہ لوگوں کو مسیحیت قبول کرنے کی دعوت دے رہا تھا، 21 افراد کو گرفتار کیا گیا، جن میں ایک امریکی خاتون بھی شامل ہیں۔
قبل ازیں آئی اے ایم نے ایک بیان میں کہا کہ ایک ’غیر ملکی‘ سمیت 18 افراد کو حراست میں لے لیا گیا ہے اور انہیں الزامات کی نوعیت کے بارے میں کوئی معلومات نہیں، امریکی خاتون اور افغان عملے کے 2 ارکان کو سب سے پہلے 3 ستمبر کو حراست میں لیا گیا تھا، جس کے بعد بدھ کو مزید 15 افغان ملازمین کو حراست میں لے لیا گیا۔
این جی او کا مزید کہنا ہے کہ اگر ہماری تنظیم یا عملے کے کسی رکن کے خلاف کوئی الزام عائد کیا جاتا ہے تو ہم پیش کیے گئے کسی بھی ثبوت کا آزادانہ طور پر جائزہ لیں گے۔
آئی اے ایم کی ویب سائٹ کا کہنا ہے کہ تنظیم کی بنیاد مسیحی اقدار پر رکھی گئی ہے، تاہم یہ سیاسی یا مذہبی عقیدے کے مطابق امداد فراہم نہیں کرتی، ہم مقامی رسم و رواج اور ثقافتوں کی قدر کرتے ہیں اور ان کا احترام کرتے ہیں۔
آئی اے ایم 1966 سے افغانستان میں فعال ہے اور ماضی کی شاہی، کمیونسٹ اور طالبان حکومتوں کے دوران بھی کام کرتی رہی ہے، افغانستان میں کام کے دوران اس تنظیم نے بالخصوص آنکھوں کے علاج کے لیے سہولیات فراہم کیں، بعد ازاں اس نے صحت اور تعلیم جیسے دیگر شعبوں میں بھی خدمات فراہم کیں۔
2010 میں شمالی افغانستان میں ایک حملے میں 8 غیر ملکیوں سمیت آئی اے ایم کے طبی عملے کے 10 ارکان کو گولی مار کر قتل کر دیا گیا تھا، اس وقت حملے کے محرکات کے بارے میں مختلف مؤقف سامنے آئے تھے جبکہ پولیس کا کہنا تھا کہ یہ ممکنہ طور پر ڈکیتی کی کارروائی تھی۔
تاہم 2 عسکریت پسند گروہوں نے اس حملے کی ذمہ داری قبول کی، جن میں طالبان رہنما بھی شامل تھے، ان کا دعویٰ تھا کہ یہ طبی عملہ مشنری تھا، ان افراد پر فوجی جاسوسوں کے طور پر کام کرنے کا الزام بھی عائد کیا گیا تھا۔
اگست 2021 میں طالبان کے اقتدار میں واپس آنے کے بعد سے طالبان حکام نے درجنوں غیر ملکیوں کو حراست میں لیا ہے، جن میں مغربی ممالک سے تعلق رکھنے والے کئی شہری بھی شامل ہیں۔
طالبان حکمرانوں نے افغانستان کے شہریوں پر کئی قسم کی پابندیاں عائد کر رکھی ہیں، جو اُن کے بقول اسلامی شرعی قانون کے مطابق ہیں، ان پابندیوں میں خواتین کو این جی اوز اور اقوام متحدہ کے لیے کام کرنے سے روکنا بھی شامل ہے۔