• KHI: Fajr 4:58am Sunrise 6:16am
  • LHR: Fajr 4:20am Sunrise 5:43am
  • ISB: Fajr 4:22am Sunrise 5:47am
  • KHI: Fajr 4:58am Sunrise 6:16am
  • LHR: Fajr 4:20am Sunrise 5:43am
  • ISB: Fajr 4:22am Sunrise 5:47am

جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے چیف جسٹس آف پاکستان کے عہدے کا حلف اٹھالیا

شائع September 17, 2023
صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے جسٹس فائز عیسیٰ سے حلف لیا — فوٹو: ایوان صدر
صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے جسٹس فائز عیسیٰ سے حلف لیا — فوٹو: ایوان صدر
تقریب حلف برداری میں نگران وزیراعظم انوار الحق کاکڑ اور آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے بھی شرکت کی — فوٹو: ڈان نیوز
تقریب حلف برداری میں نگران وزیراعظم انوار الحق کاکڑ اور آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے بھی شرکت کی — فوٹو: ڈان نیوز

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے 29ویں چیف جسٹس آف پاکستان کے عہدے کا حلف اٹھا لیا۔

ایوانِ صدر میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی حلف برداری کی تقریب منعقد ہوئی، صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے جسٹس فائز عیسیٰ سے حلف لیا، اس موقع پر ان کی اہلیہ سرینا عیسیٰ بھی ان کے ہمراہ موجود تھیں۔

تقریب حلف برداری میں نگران وزیر اعظم انوارالحق کاکڑ اور آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے بھی شرکت کی۔

سابق چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی گزشتہ روز ریٹائرمنٹ کے بعد جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے آج پاکستان کے 29ویں چیف جسٹس کی حیثیت سے حلف اٹھایا ہے۔

رواں برس 21 جون کو صدر عارف علوی نے آئین کے آرٹیکل 175 (اے) (3) کے تحت جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی بطور چیف جسٹس آف پاکستان تعیناتی کی منظوری دی تھی۔

ان کی تعیناتی کے حوالے سے ایک مثبت تاثر موجود ہے کہ اس سے سپریم کورٹ میں تقسیم کے تاثر کو کم کرنے میں مدد ملے گی۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق متعدد اعلیٰ افسران نے اس حوالے سے گزشتہ چند روز سے جاری بات چیت کے دوران اعتراف کیا کہ سب کو جلد ہی سپریم کورٹ میں اتحاد نظر آئے گا۔

یہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو اپنے دور میں درپیش سب سے بڑا چیلنج ہو سکتا ہے کیونکہ چیف جسٹس آف پاکستان کو عدالت کو متحد کرنا اور عدالت کی ساکھ کو بحال کرنا ہو گا تاکہ کوئی عدالت کے فیصلوں پر انگلی نہ اٹھا سکے۔

عوامی اہمیت کے آئینی معاملات کی سماعت کے لیے ’ہم خیال ججوں‘ پر مشتمل ایک مخصوص بینچ کی تشکیل اعلیٰ عدلیہ پر تنقید کا سبب بن چکی ہے، یہ عمومی احساس پایا جاتا ہے کہ عدالتی کارروائی کے مطلوبہ نتائج حاصل کرنے کے لیے بینچز کی تشکیل میں سینئر ججوں کو شامل نہیں کیا جاتا۔

آج بطور چیف جسٹس تعیناتی کے بعد کل بروز پیر کو پہلے روز جسٹس قاضی فائز عیسیٰ ’سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ 2023‘ کے خلاف درخواست کی سماعت کریں گے، یہ ایک بل ہے جو عوامی اہمیت کے حامل آئینی معاملات پر سینئر ججز پر مشتمل تین رکنی کمیٹی کے ذریعے بینچز کی تشکیل کا پابند کرتا ہے۔

حال ہی میں عہدے سے سبکدوش ہونے والے چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں 8 ججوں پر مشتمل بینچ نے 13 اپریل کو سپریم کورٹ (پریکٹس اینڈ پروسیجر) ایکٹ 2023 کے نفاذ کو معطل کر دیا تھا۔

قبل ازیں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں کمیشن نے ایک بیان میں ایک بینچ کی تشکیل پر سوال اٹھایا تھا جو آڈیو لیکس کی تحقیقات کے لیے بنائی گئی تحقیقاتی باڈی کے خلاف 6 درخواستوں کی سماعت کر رہا تھا، بیان میں کہا گیا تھا کہ اس معاملے کی سماعت کرنے والا بینچ مذکورہ معطل شدہ ایکٹ کے تحت مطلوبہ ججوں کی 3 رکنی کمیٹی کے تحت تشکیل نہیں دیا گیا۔

کمیشن نے بیان میں کہا تھا کہ آڈیو کمیشن کو چیلنج کرنے والی درخواستیں ججوں کی کمیٹی کی تشکیل کردہ بینچ کے سامنے سماعت کے لیے مقرر نہیں کی گئیں، لہٰذا ان درخواستوں کی سماعت اس وقت تک نہیں ہو سکتی جب تک کہ کمیٹی یہ طے نہیں کر لیتی کہ کون سا بینچ ان پر سماعت کرے گا۔

3 جون کو جسٹس قاضٰی فائز عیسیٰ نے فوجی عدالتوں میں عام شہریوں کے مقدمات کی سماعت کرنے والے 9 ججوں کے بینچ میں نہ بیٹھنے کا فیصلہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ قانون کی معطلی کی خلاف ورزی نہیں کرنا چاہتے، جب تک عدالت پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے بارے میں فیصلہ نہیں کرتی وہ بینچز میں نہیں بیٹھیں گے۔

نتیجتاً جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے عدالتی سماعتوں کے بجائے چیمبر ورک کرنے کا انتخاب کیا۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کون ہیں؟

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ 26 اکتوبر 1959 کو کوئٹہ میں پیدا ہوئے، آپ کے والد مرحوم قاضی محمد عیسیٰ آف پشین، قیامِ پاکستان کی تحریک کے سرکردہ رکن تھے اور محمد علی جناح کے قریبی ساتھی تصور کیے جاتے تھے۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے والد صوبے کے پہلے فرد تھے جنہوں نے قانون کی ڈگری حاصل کی اور لندن سے واپس آکر بلوچستان میں آل انڈیا مسلم لیگ قائم کی، ان کے والد بلوچستان میں آل انڈیا مسلم لیگ کی مرکزی ورکنگ کمیٹی کے واحد رکن تھے۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی والدہ بیگم سعدیہ عیسیٰ سماجی کارکن تھیں، وہ ہسپتالوں اور دیگر فلاحی تنظیموں کے لیے کام کرتی تھیں، جو بچوں اور خواتین کی تعلیم اور صحت سے متعلق مسائل پر کام کرتی تھیں۔

ابتدائی زندگی

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کوئٹہ سے اپنی ابتدائی تعلیم مکمل کرنے کے بعد سندھ کے دارالحکومت کراچی میں کراچی گرامر اسکول سے او اور اے لیول مکمل کیا، جس کے بعد وہ قانون کی تعلیم حاصل کرنے کے لیے لندن چلے گئے جہاں انہوں نے کورٹ اسکول لا سے بار پروفیشنل اگزامینیشن مکمل کیا۔

آپ 30 جنوری 1985 کو بلوچستان ہائی کورٹ میں ایڈووکیٹ کے طور پر رجسٹرڈ ہوئے اور پھر مارچ 1998 میں ایڈووکیٹ سپریم کورٹ بنے۔

3 نومبر 2007 کو ایمرجنسی کے اعلان کے بعد انہوں نے فیصلہ کیا کہ وہ اپنے حلف کی خلاف ورزی کرنے والے ججز کے سامنے پیش نہیں ہوں گے، اسی دوران سپریم کورٹ کی جانب سے 3 نومبر کے فیصلے کو کالعدم قرار دیے جانے کے بعد اس وقت کے بلوچستان ہائی کورٹ کے ججز نے استعفیٰ دے دیا۔

بعد ازاں 5 اگست 2009 کو جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو براہ راست بلوچستان ہائی کورٹ کا جج مقرر کردیا گیا۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ، بلوچستان ہائی کورٹ، وفاقی شرعی عدالت اور سپریم کورٹ میں جج مقرر ہونے سے قبل 27 سال تک وکالت کے شعبے سے وابستہ رہے، وہ اس دوران بلوچستان ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن، سندھ ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن اور سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن آف پاکستان کے تاحیات رکن رہے۔

علاوہ ازیں انہیں مختلف مواقع پر ہائی کورٹس اور سپریم کورٹ کی جانب سے متعدد مشکل کیسز میں معاونت کے لیے بھی طلب کیا جاتا رہا، اس کے علاوہ وہ انٹر نیشنل آربیٹریشن (قانونی معاملات) کو بھی دیکھتے رہے۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے 5 ستمبر 2014 کو سپریم کورٹ آف پاکستان کے جج کی حیثیت سے حلف اٹھایا، وہ ان دنوں اسلام آباد میں اپنی اہلیہ کے ساتھ مقیم ہیں اور ان کے 2 بچے ہیں۔

کارٹون

کارٹون : 7 ستمبر 2024
کارٹون : 6 ستمبر 2024