سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کی معطلی آئندہ ہفتے ختم کیے جانے کا امکان
چیف جسٹس آف پاکستان کا عہدہ سنبھالنے کے فوراً بعد جسٹس قاضی فائز عیسیٰ پیر کے روز سپریم کورٹ (پریکٹس اینڈ پروسیجر) ایکٹ 2023 کے خلاف دائر درخواستوں پر سماعت کریں گے۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق سپریم کورٹ (پریکٹس اینڈ پروسیجر) ایکٹ 2023 کے تحت عوامی اہمیت کے آئینی معاملات پر بینچوں کی تشکیل عدالت عظمیٰ کے تین سینئر ججوں کی کمیٹی کرے گی۔
سپریم کورٹ (پریکٹس اینڈ پروسیجر) ایکٹ 2023 کا نفاذ سبکدوش ہونے والے چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 8 رکنی بینچ نے 13 اپریل کو معطل کر دیا تھا۔
توقع ہے کہ سپریم کورٹ کے تمام دستیاب ججوں پر مشتمل فل کورٹ ایکٹ معطلی کے فیصلے کو منسوخ کر سکتا ہے۔
قانون کو معطل کرتے ہوئے چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے تھے کہ عدالت عظمیٰ پارلیمنٹ کا بہت احترام کرتی ہے لیکن اس نے اس بات کا جائزہ بھی لینا ہے کہ سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل 2023 کے نفاذ میں آئین سے انحراف، آئین کی خلاف ورزی یا آئین سے ماورا کوئی شق تو شامل نہیں کی گئی۔
درخواست گزاروں نے عدالت عظمیٰ سے استدعا کی تھی کہ سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل کا تصور، اس کی تیاری، اس کی توثیق اور اس کو پاس کیا جانا بددیانتی پر مبنی ہے، لہٰذا اسے خلاف آئین قرار دے کر کالعدم کیا جائے۔
درخواست میں مزید کہا گیا تھا کہ وفاقی حکومت ایسا کوئی قانون نہیں بنا سکتی، جو عدالت عظمیٰ کے آئین کے تحت کام یا چیف جسٹس سمیت اس کے دیگر ججز کے اختیارات میں مداخلت کا باعث ہو یا جس کے ذریعے اس کے اختیارات کو ریگولیٹ کرنے کی کوشش کی جائے۔
جسٹس سید منصور علی شاہ نے نیب ترمیمی کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس سے درخواست کی تھی کہ وہ نیب ترمیمی کیس کی سماعت کے لیے فل کورٹ تشکیل دینے پر غور کریں یا سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ 2023 کی قانونی حیثیت کا فیصلہ ہونے تک انتظار کریں۔
اٹارنی جنرل پاکستان منصور عثمان اعوان کو 18 ستمبر کو ہونے والی سماعت کے لیے نوٹس پہلے ہی جاری کیے جا چکے ہیں۔