• KHI: Zuhr 12:31pm Asr 4:13pm
  • LHR: Zuhr 12:02pm Asr 3:27pm
  • ISB: Zuhr 12:07pm Asr 3:27pm
  • KHI: Zuhr 12:31pm Asr 4:13pm
  • LHR: Zuhr 12:02pm Asr 3:27pm
  • ISB: Zuhr 12:07pm Asr 3:27pm

بھارت: سوشل میڈیا پوسٹ پر مشتعل ہندو ہجوم کا مسجد پر حملہ، ایک نوجوان جاں بحق

شائع September 15, 2023
29سالہ مسلمان نوجوان نور الحسن— فوٹو بشکریہ ٹوئٹر
29سالہ مسلمان نوجوان نور الحسن— فوٹو بشکریہ ٹوئٹر

بھارتی ریاست مہاراشٹر کے ضلع ستارا کے گاؤں پُسے سوالی میں ایک سوشل میڈیا پوسٹ پر مشتعل ہندو انتہا پسندوں کے ہجوم نے مسجد پر حملہ کر کے 29 سالہ نوجوان نور الحسن کو قتل کردیا۔

قطری نشریاتی ادارہ الجزیرہ کی رپورٹ کے مطابق مقتول نورالحسن کے والد نے بتایا کہ 10 ستمبر کو میرا انجینئر بیٹا نور الحسن رات ساڑھے8 بجے قریبی مسجد میں عشا کی نماز پڑھنے گیا تھا۔

مقتول کے چچا محمد سراج نے بتایا کہ مسجد میں 15 لوگ موجود تھے اور نماز جاری تھی کہ اسی دوران مسجد کے باہر کچھ شور شرابا سنائی دیا اور اس مشتعل ہجوم نے مسجد کو گھیرے میں لے لیا اور مسلم مخالف نعرے بازی کرتے ہوئے اسلام کے بارے میں تضحیک آمیز جملے کہے، مسجد کے باہر 150 سے 200 لوگ جمع ہو گئے اور پتھراؤ شروع کر دیا اور گاڑیوں کو بھی نقصان پہنچایا۔

ایک عینی شاہد نے بتایا کہ یہ ہجوم مسجد کا دروازہ توڑ کر اندر داخل ہو گیا، انہوں نے تیز دھار آلے، آہنی سلاخیں اور لاٹھیاں اٹھائی ہوئی تھیں، مسجد کے اندر داخل ہو کر انہوں نے جو بھی سامنے آیا اس پر تشدد کرنا شروع کردیا، انہوں نے متعدد مرتبہ نور کے سر پر آہنی سلاخوں سے وار کیا جس سے وہ خون میں نہا گئے اور موقع پر ہی دم توڑ گئے جبکہ اس دوران مزید 14 افراد بھی شدید زخمی ہوئے۔

ان کا کہنا تھا کہ ہجوم نے قریبی دکانوں کو آگ لگا دی اور متعدد گاڑیوں کے ساتھ ساتھ ایسے تمام ٹھیلوں کی بھی توڑ پھوڑ کی جس پر مسلمانوں کے نام لکھے ہوئے تھے، انہوں نے مسجد کی تمام لائٹیں توڑ دیں اور قرآن کے ساتھ ساتھ وہاں موجود کئی کتب بھی نذر آتش کردیں اور ایسا لگتا تھا کہ وہ ہم سب کو قتل کردیں گے۔

نور الحسن کے والد محمد لیاقت نے الجزیرہ سے فون پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ جب میں نے اپنے بیٹے کی بے جان لاش بستر پر پڑی دیکھی تو میری پوری دنیا اجڑ گئی، اس موقع پر مجھے یقین نہیں آیا کہ میری آنکھوں کے سامنے کیا ہو رہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ گاؤں میں کسی نے قریبی پولیس چوکی کو الرٹ کیا اور ان کی مداخلت کی وجہ سے مشتعل ہجوم منتشر ہو گیا، جاتے جاتے ہجوم نے قریبی کھڑی گاڑیوں اور ایک دوسری مسجد کے شیشے توڑ دیے اور مسلمان خواتین کے حوالے سے تضحیک آمیز جملے بھی کہے۔

سراج نے کہا کہ پولیس نور کو ہسپتال لے کر گئی جہاں انہیں مردہ قرار دیا گیا جس کے بعد مزید تحقیقات کے لیے قریبی بڑے ہسپتال منتقل کیا گیا، نور کے ہاتھ میں فریکچر ہوا تھا اور ان کے سر، گردن اور سینے میں گہری چوٹیں آئی تھیں جس سے وہ فوری دم توڑ گئے۔

سراج نے بتایا کہ یہ سب اس وقت شروع ہوا جب ایک ہندو نے مبینہ طور پر ایک مسلمان نوجوان کا اکاؤنٹ ہیک کر کے 17ویں صدی میں مغلوں کے خلاف جنگ لڑنے والے ہندو بادشاہ چھتراپتی کے حوالے سے قابل اعتراض مواد پوسٹ کیا، یہ پوسٹ وائرل ہو گئی جس سے مسلمان اور ہندوؤں کے علاقوں میں کشیدگی پیدا ہوگئی۔

نور الحسن کے والد نے کہا کہ یہ حملہ مسلمانوں کو نشانہ بنانے کے لیے منصوبہ بندی کے تحت کیا گیا کیونکہ شیواجی کے خلاف پوسٹ ایک ہندو لڑکے نے کی تھی۔

تحقیقات کے بعد پولیس نے تصدیق کی کہ یہ پوسٹ مسلمان نوجوان نے نہیں کی تھی اور اس پوسٹ کے الزام میں امر ارجُن شندے کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔

ایک پولیس افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر گفتگو کرتے ہوئے گرفتاری کی تصدیق کی اور بتایا کہ صورت حال پر قابو پانے کی کوشش میں 10 پولیس اہلکار بھی زخمی ہوئے جبکہ قانون نافذ کرنے والے اداروں نے صورت حال پر قابو پانے کے لیے علاقے میں انٹرنیٹ سروس بند کر کے پولیس تعینات کر دی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اس حوالے سے تین ایف آئی آرز درج کی ہیں جبکہ اب تک 35 افراد کو گرفتار کیا جا چکا ہے اور مزید تفتیش جاری ہے۔

کارٹون

کارٹون : 23 دسمبر 2024
کارٹون : 22 دسمبر 2024