الیکشن کمیشن کے ’امتیازی سلوک‘ سے نالاں پیپلزپارٹی کا جلد از جلد انتخابات کا مطالبہ
پیپلزپارٹی کی سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کے گزشتہ روز منعقدہ اہم اجلاس میں پارٹی قیادت نے نگران کابینہ میں مسلم لیگ (ن) کے حامی افراد کی شمولیت، الیکشن کمیشن کی جانب سے سندھ میں ترقیاتی منصوبوں پر پابندی اور عام انتخابات کی تاریخ کے اعلان میں تاخیر پر تحفظات کا اظہار کیا۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق پارٹی چیئرمین کی جانب سے لیول پلیئنگ فیلڈ نہ ملنے کا بیان دہراتے ہوئے پیپلزپارٹی نے الیکشن کمیشن پر زور دیا کہ اگر 90 روز کی آئینی مدت کے اندر انتخابات کا انعقاد ممکن نہیں تو جتنی جلدی ہوسکے انتخابات کرائے جائیں۔
انتخابات کے وقت کے حوالے سے پیپلز پارٹی کے اعلیٰ عہدیداروں نے بلاول بھٹو زرداری کے مؤقف سے اتفاق کیا، خیال رہے کہ بلاول بھٹو کا مؤقف آصف علی زرداری کے حالیہ بیان کے برعکس ہے, جو پی ڈی ایم کی اتحادی حکومت کی جانب سے قومی اسمبلی کی تحلیل سے چند روز قبل منظور شدہ مردم شماری کی روشنی میں تازہ حلقہ بندیوں کی وجہ سے انتخابات میں تاخیر کے حق میں ہیں۔
حالیہ عوامی جلسوں میں بلاول بھٹو کے ’جارحانہ لہجے‘ پر کچھ ارکان نے تشویش ظاہر کی، تاہم پارٹی چیئرمین اور اراکین کی اکثریت نے ان کے جارحانہ لہجے کے بارے میں خدشات کو مسترد کر دیا اور حقیقی اور منصفانہ سیاست کے مؤقف پر ڈٹے رہنے اور انتخابی مہم میں اپنا مؤقف پیش کرنے کا عزم کیا۔
حلقہ بندیوں کیلئے مدت کو مزید کم کیا جا سکتا ہے، شازیہ مری
اجلاس کے موقع پر پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے پیپلزپارٹی کی سیکریٹری اطلاعات شازیہ مری نے کہا کہ پارٹی کی سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی (سی ای سی) کا اجلاس آج (جمعہ) کو بھی جاری رہے گا، جس میں صدر کے الیکشن کمیشن کو لکھے گئے خط، موجودہ سیاسی صورتحال، عام انتخابات، نگران سیٹ اپ میں مسلم لیگ (ن) کے حامی افراد کی بطور وزیر شمولیت، قومی معیشت اور دیگر بہت سے مسائل کا جائزہ لیا جائے گا۔
فیصل کریم کنڈی اور شہزاد سعید چیمہ کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ جلد از جلد انتخابات کا انعقاد ملک کے مفاد میں ہے تاکہ ملک موجودہ غیر یقینی صورتحال سے نکل سکے۔
انہوں نے کہا کہ ہم تسلیم کرتے ہیں کہ نئی مردم شماری کے بعد حلقہ بندی ضروری ہے لیکن کوشش کی جانی چاہیے کہ کسی ایک شق کی خاطر دیگر آئینی شقوں کی خلاف ورزی نہ ہو یا کم از کم اس طرح کی کوئی بھی خلاف ورزی ممکنہ حد تک کم سےکم ہونی چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ پیپلز پارٹی ہمیشہ 90 دن کے اندر انتخابات کرانے کے حق میں رہی ہے، چاہے پنجاب میں ہو یا کہیں اور، پیپلز پارٹی کو نئی مردم شماری کے تحت حلقہ بندیوں پر کوئی اعتراض نہیں لیکن اس کے لیے وقت ضائع کیے جانے پر تحفظات ہیں، الیکشن کمیشن نے اس سے قبل حلقہ بندیوں کی مدت میں کمی کی تھی اور پارٹی کی رائے ہے کہ اس مدت کو مزید کم کیا جا سکتا ہے تاکہ انتخابات کے انعقاد کے لیے 90 دن کی آئینی حد کی زیادہ خلاف ورزی نہ ہو۔
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ قانونی ماہرین نے سی ای سی کے شرکا کو آگاہ کیا کہ صدر عارف علوی کے پاس یہ اختیار نہیں کہ وہ چیف الیکشن کمشنر کو خط لکھ سکیں یا انتخابات کی کوئی تاریخ تجویز کرسکیں۔
انہوں نے کہا کہ صدر کے خط نے ابہام پیدا کیا ہے، ان کا کوئی واضح مؤقف نہیں ہے اور وہ وکٹ کے دونوں طرف کھیل رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ سی ای سی کے اراکین کو سابق بیوروکریٹس اور مسلم لیگ (ن) کے قریبی فرد سمجھے جانے والے احد چیمہ، فواد حسن فواد اور عمر سیف کو نگران وزیراعظم انوار الحق کاکڑ کی وفاقی کابینہ میں بطور وزیر شامل کیے جانے پر تحفظات ہیں۔
ذرائع کے مطابق اجلاس کے دوران پارٹی اراکین میں پائی جانے والی یہ تشویش بھی زیرِ بحث آئی کہ مسلم لیگ (ن) کو وفاق اور پنجاب کی نگران حکومتوں میں ایک قسم کی پذیرائی مل رہی ہے اور یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے۔
شازیہ مری نے کہا کہ پاکستان کے عوام دیکھ رہے ہیں کہ (کابینہ میں شامل کیے جانے والے) یہ لوگ ایک مخصوص پارٹی کی جانب جھکاؤ کے لیے جانے جاتے ہیں، یہ نگران حکومت کی غیرجانبداری کے لیے موزوں نہیں ہے۔
انتخابات سے متعلق ایک سوال کے جواب میں شازیہ مری نے کہا کہ پیپلز پارٹی کی خواہش ہے کہ تمام سیاسی جماعتیں الیکشن کے معاملے پر ایک پیج پر ہوں تاکہ کسی کو اس کے نتائج پر اعتراض نہ ہو۔
انہوں نے یاد دہانی کروائی کہ پارٹی چیئرمین نے اس سے قبل قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے عام انتخابات ایک ہی دن کرانے کے لیے پی ٹی آئی سمیت تمام جماعتوں سے رجوع کرنے کے لیے ایک کمیٹی بنائی تھی لیکن پی ٹی آئی آخری لمحات میں پیچھے ہٹ گئی تھی۔
شازیہ مری نے الزام عائد کیا کہ الیکشن کمیشن کی جانب سے پیپلزپارٹی کے ساتھ امتیازی سلوک روا رکھا جارہا ہے کیونکہ سندھ میں اپنی مدت پوری کرنے سے قبل پیپلزپارٹی کی حکومت کی جانب سے اعلان کردہ منصوبوں پر پابندی عائد کردی گئی ہے جبکہ پنجاب اور خیبرپختونخوا میں نگران حکومتیں بغیر کسی روک ٹوک کے نئی ترقیاتی اسکیمیں شروع کررہی ہیں۔
عدالتوں میں چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کی نمائندگی پر لطیف کھوسہ کو جاری کیے گئے شو کاز نوٹس کے بارے میں بات کرتے ہوئے فیصل کریم کنڈی نے کہا کہ لطیف کھوسہ کو تاحال پارٹی سے نکالا نہیں گیا ہے، اُن کو سی ای سی اجلاس میں مدعو کیا گیا تھا لیکن وہ شریک نہیں ہوئے۔