• KHI: Zuhr 12:30pm Asr 4:12pm
  • LHR: Zuhr 12:01pm Asr 3:26pm
  • ISB: Zuhr 12:06pm Asr 3:26pm
  • KHI: Zuhr 12:30pm Asr 4:12pm
  • LHR: Zuhr 12:01pm Asr 3:26pm
  • ISB: Zuhr 12:06pm Asr 3:26pm

عمران ریاض کیس: درست سمت میں ہیں، 10 سے 15 روز میں اچھی خبر دیں گے، آئی جی پنجاب

شائع September 13, 2023
عمران ریاض کے والد کے وکیل میاں علی اشفاق نے کہا کہ ابھی تک تفتیش درست سمت میں جا رہی ہے — فائل فوٹو: ڈان
عمران ریاض کے والد کے وکیل میاں علی اشفاق نے کہا کہ ابھی تک تفتیش درست سمت میں جا رہی ہے — فائل فوٹو: ڈان

انسپکٹر جنرل آف پولیس (آئی جی پی) پنجاب ڈاکٹر عثمان انور نے لاہور ہائی کورٹ میں اینکرپرسن عمران ریاض کی بازیابی کے لیے دائر درخواست پر سماعت کے دوران عدالت کو یقین دہانی کرائی کہ ’تفتیش درست سمت‘ میں جا رہی ہے اور 10 سے 15 دنوں میں اچھی خبر دیں گے۔

لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس امیر علی بھٹی نے عمران ریاض کے والد کی درخواست پر سماعت کی جہاں آئی جی پنجاب ڈاکٹر عثمان انور اور عمران ریاض کے والد کے وکیل میاں علی اشفاق عدالت میں پیش ہوئے۔

چیف جسٹس امیر بھٹی نے آئی جی پنجاب سے استفسار کیا کہ معاملے میں کیا پیش رفت ہوئی ہے، جس پر آئی جی نے جواب دیا کہ ہم نے عدالتی احکامات پر عمران ریاض کے والد اور ان کے وکیل سے ملاقات کی۔

ڈاکٹر عثمان انور نے کہا کہ تمام پیش رفت سے متعلق عمران ریاض کے والد اور وکلا کو بتا دیا گیا ہے، معاملے پر ٹھیک سمت میں جا رہے ہیں اور پیش رفت سے متعلق وکلا سے بھی پوچھا جا سکتا ہے۔

آئی جی پنجاب نے عدالت کو بتایا کہ ہم 10 سے 15 دن کے اندر اچھی خبر دیں گے۔

عمران ریاض کے والد کے وکیل میاں علی اشفاق نے کہا کہ ابھی تک تفتیش درست سمت میں جا رہی ہے، کیس میں کسی بھی وقت کسی بھی لمحے پیش رفت ہوسکتی ہے تاہم عدالت نے کیس کی سماعت 20 ستمبر تک ملتوی کر دی۔

خیال رہے کہ 9 مئی کو پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) چیئرمین عمران خان کی گرفتاری پر ملک بھر میں پرتشدد مظاہروں کے بعد صحافی عمران ریاض کو بھی گرفتار کر لیا گیا تھا۔

گرفتاری کے بعد عمران ریاض کو آخری بار تھانہ کینٹ اور بعد ازاں سیالکوٹ جیل لے جایا گیا تھا، انتظامیہ کی جانب سے 15 مئی کو عدالت کو بتایا گیا تھا کہ اینکر پرسن کو تحریری حلف نامے کے بعد جیل سے رہا کیا گیا تھا، تاہم تاحال ان کا کچھ پتا نہیں چل سکا۔

9 مئی کو ہونے والے پرتشدد مظاہروں کے بعد دیگر صحافیوں کی طرح عمران ریاض کو بھی گرفتار کرلیا گیا تھا۔

بعد ازاں اینکر پرسن کے والد محمد ریاض کی شکایت پر 16 مئی کو سیالکوٹ سول لائنز پولیس میں ریاض کے مبینہ اغوا کی فرسٹ انفارمیشن رپورٹ (ایف آئی آر) درج کی گئی تھی۔

ایف آئی آر تعزیرات پاکستان کی دفعہ 365 کے تحت ’نامعلوم افراد‘ اور پولیس اہلکاروں کے خلاف مبینہ طور پر عمران ریاض کو اغوا کرنے کے خلاف درج کی گئی تھی۔

صحافی کے والد نے بیٹے کی بازیابی کے لیے لاہور ہائی کورٹ میں درخواست بھی دائر کی تھی۔

لاہور ہائی کورٹ میں 6 ستمبر کو ہونے والی گزشتہ سماعت میں آئی جی ڈاکٹر عثمان انور نے کہا تھا کہ کیس میں مثبت پیش رفت ہوئی ہے۔

صحافی عمران ریاض کے والد نے کمرہ عدالت سے باہر میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ وہ اس وقت مطئمن ہوں گے جب وہ اپنے بیٹے کو اپنے سامنے دیکھیں گے۔

وائس آف امریکا سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ’وہ (پولیس) کہہ رہے ہیں کہ وہ قریب پہنچ چکے ہیں، وہ ہمیں ہر بار نئی امید دیتے ہیں، اور ہم ان کے شکر گزار ہیں‘۔

گزشتہ سماعتوں میں کیا ہوا؟

خیال رہے کہ 19 مئی کو کیس کی سماعت کے دوران اینکر پرسن کے والد نے لاہور ہائی کورٹ میں درخواست کرتے ہوئے آبدیدہ ہوگئے تھے اور اس کے اگلے روز لاہور ہائیکورٹ کے چیف جسٹس نے پولیس کو 22 مئی تک اینکر پرسن کو بازیاب کر کے پیش کرنے کا حکم دیا تھا۔

اس تاریخ کو لاہور ہائی کورٹ نے وزارت داخلہ اور دفاع کو ہدایت کی تھی کہ وہ اینکر پرسن کی بازیابی کے لیے اپنے آئینی فرائض ادا کریں جب آئی جی پنجاب نے انکشاف کیا تھا کہ ملک بھر کے کسی محکمہ پولیس میں صحافی کا کوئی سراغ نہیں ملا۔

بعد ازاں لاہور ہائی کورٹ کو بتایا گیا تھا کہ انٹر سروسز انٹیلی جنس اور ملٹری انٹیلی جنس دونوں نے جواب دیا کہ اینکر پرسن ان کی تحویل میں نہیں ہے۔

26 مئی کو ہائی کورٹ نے تمام ایجنسیوں کو ہدایت دی تھی کہ وہ اینکر پرسن کو تلاش کرنے اور 30 مئی تک عدالت میں پیش کرنے کے لیے مل کر کام کریں۔

جب تاریخ قریب آئی تو آئی جی پنجاب نے لاہور ہائی کورٹ کو بتایا تھا کہ جو فون نمبر افغانستان سے ٹریس کیے گئے تھے وہ اس کیس میں ملوث ہیں۔

6 جون کو ہونے والی سماعت کے دوران اینکرپرسن کے وکیل نے کہا تھا کہ ان کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو چکا ہے حالانکہ پنجاب حکومت نے ہائی کورٹ کو بتایا تھا کہ صحافی کی تلاش کی کوششیں جاری ہیں۔

بعد ازاں 5 جولائی کی سماعت کے دعران لاہور ہائی کورٹ نے لاپتا صحافی کی بازیابی کے لیے 25 جولائی کا وقت دیا تھا، تاہم عدالتی بینچ کی غیرحاضری کی وجہ سے اس تاریخ پر سماعت نہ ہو سکی۔

وزارت دفاع کی نمائندگی کرتے ہوئے ریٹائرڈ بریگیڈیئر فلک ناز نے عدالت کو بتایا تھا کہ ہم مقامات اور دیگر مسائل کا سراغ لگانے پر کام کر رہے ہیں، ہم عمران ریاض کو جلد از جلد بازیاب کرانے کی کوشش کر رہے ہیں۔

عمران ریاض کے وکیل میاں اشفاق علی نے کہا کہ تمام ادارے عمران ریاض کی تلاش کے لیے کام کر رہے ہیں اور ہمیں امید ہے کہ وہ جلد بازیاب ہو جائیں گے۔

کارٹون

کارٹون : 21 دسمبر 2024
کارٹون : 20 دسمبر 2024