طورخم بارڈر تاحال بند، پاک افغان بارڈر سیکیورٹی حکام کے درمیان مذاکرات بےنتیجہ ثابت
طورخم بارڈر دوبارہ کھولنے کے حوالے سے کسی معاہدے کے تحت اتفاق رائے پیدا کرنے کے لیے پاکستانی اور افغان بارڈر سیکیورٹی حکام کے درمیان منعقدہ اجلاس بے نتیجہ ثابت ہوا۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق گزشتہ ہفتے بدھ (6 ستمبر) کو سرحدی فورسز کے درمیان جھڑپوں کے نتیجے میں طورخم بارڈر بند ہونے کے بعد زیرو پوائنٹ پر دونوں فریقین کے درمیان یہ پہلی ملاقات تھی۔
ملاقات میں پاکستان کی نمائندگی خیبر رائفلز کے کمانڈنٹ عاصم کیانی، چترال اسکاؤٹس کے لیفٹیننٹ کرنل احمد مجتبیٰ، لیفٹیننٹ کرنل زین العابدین اور میجر شہاب الدین نے کی۔
افغان وفد میں گمرک (کسٹمز) سے تعلق رکھنے والے حافظ عصمت اللہ یعقوبی، بارڈر سیکیورٹی فورسز کے قاری معراج اور مولوی تکل شامل تھے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ ملاقات میں بارڈر سیکیورٹی کی صورتحال پر تبادلہ خیال کیا گیا، افغان فریق نے الزام عائد کیا کہ پاکستانی بارڈر فورسز نے 6 ستمبر کو اس وقت فائرنگ کی جب وہ ایک نئی سیکیورٹی چیک پوسٹ بنانے اور پرانی چوکی کو دوبارہ تعمیر کرنے کی کوشش کررہے تھے۔
افغان وفد نے ان الزامات کو مسترد کر دیا کہ انہوں نے فائرنگ شروع کی تھی، انہوں نے کہا کہ نئی چیک پوسٹ اگر قائم ہوجاتی ہے تو یہ پاکستانی حکام کے لیے مددگار ثابت ہوگی اور ان کے خلاف استعمال نہیں ہو گی۔
پاکستانی وفد نے واضح کیا کہ انہیں کسی پرانی پوسٹ یا سیکیورٹی اسٹرکچر کی ازسرنو تعمیر پر کوئی اعتراض نہیں ہے لیکن ماضی کے معاہدوں کے تحت سرحد کے 100 میٹر کے دائرے میں کسی بھی نئی تعمیرات کے بارے میں افغان حکام پاکستان کو آگاہ کرنے کے پابند ہیں۔
افغان حکام نے بارڈر دوبارہ کھولنے کے بارے میں فوری فیصلے پر اصرار کیا جبکہ پاکستان کی جانب سے واضح کیا گیا کہ ’اعلیٰ حکام‘ سے مشاورت کے بعد فیصلہ کیا جائے گا۔
افغان فریق نے خدشہ ظاہر کیا کہ اگر جلد ہی سرحد کے آر پار نقل و حمل دوبارہ شروع نہ ہوئی تو ٹرکوں میں لدی اشیائے خورونوش گلنا شروع ہو جائیں گی۔
واضح رہے کہ سرحدی گزرگاہ گزشتہ 6 روز سے بند ہے، جس سے تجارت اور پیدل چلنے والوں کی نقل و حمل تعطل کا شکار ہوچکی ہے۔
افغانستان نے پاکستان کو مورد الزام ٹھہرایا
مقامی حکام کے مطابق پاکستان اور افغانستان کے درمیان سفارتی ذرائع سے اعلیٰ سطح کے مذاکرات جاری ہیں اور ان مذاکرات میں جو بھی فیصلہ ہوا وہ اس کی تعمیل کریں گے۔
دریں اثنا افغان وزارت خارجہ کی جانب سے جاری کردہ ایک بیان میں طورخم گیٹ کی بندش پر تشویش کا اظہار کیا گیا اور اسے اچھے پڑوسی کی اقدار کے منافی قرار دیا۔
بیان میں فائرنگ شروع کرنے کا الزام پاکستان پر عائد کرتے ہوئے کہا گیا کہ افغان فورسز کئی سال قبل تعمیر کی گئی پرانی سیکیورٹی چیک پوسٹ پر صرف مرمت کا کام کر رہی تھیں۔
بیان میں مزید کہا گیا کہ طورخم گیٹ کی بندش سے دو طرفہ اور علاقائی تجارت بری طرح متاثر ہو سکتی ہے اور دونوں طرف کے تاجروں کو تجارتی اور مالی نقصان ہو گا۔
بیان میں مزید کہا گیا کہ یہ اقدام نہ صرف دوطرفہ تجارت کو نقصان پہنچاتا ہے بلکہ برادرانہ تعلق رکھنے والے لوگوں اور ممالک کے درمیان فاصلے بڑھا دیتا ہے جبکہ علاقائی تجارت اور نقل و حمل میں رکاوٹیں اور تاخیر بھی پیدا کرتا ہے۔
بیان میں متنبہ کیا گیا کہ امارت اسلامیہ افغانستان مسائل کو افہام و تفہیم اور سفارتی بات چیت کے ذریعے حل کرنے کے عزم پر زور دیتی ہے اور اقتصادیات پر مرکوز اپنی خارجہ پالیسی کے پیش نظر پاکستانی فریق کو یہ یاد دلاتی ہے کہ اس طرح کے اقدامات افغانستان کی تجارت، خطے اور پاکستان کی قومی معیشت کے لیے بھی نقصان دہ ہیں جوکہ اس وقت پہلے سے کہیں زیادہ افغانستان کو بھیجے جانے والی برآمدات پر منحصر ہے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ پاکستان بھی اس مسئلے کا حل تلاش کرنے اور جلد از جلد بارڈر کو دوبارہ کھولنے پر غور کرنے کے لیے سنجیدہ ہے۔