• KHI: Maghrib 6:21pm Isha 7:36pm
  • LHR: Maghrib 5:50pm Isha 7:11pm
  • ISB: Maghrib 5:55pm Isha 7:17pm
  • KHI: Maghrib 6:21pm Isha 7:36pm
  • LHR: Maghrib 5:50pm Isha 7:11pm
  • ISB: Maghrib 5:55pm Isha 7:17pm

پراسیکیوٹر جنرل نیب اصغر حیدر عہدے سے ’اچانک‘ مستعفی

شائع September 10, 2023
اصغر حیدر کے اچانک استعفے کی وجہ کے بارے میں مختلف قیاس آرائیاں کی جا رہی ہیں— فائل فوٹو: اے پی پی
اصغر حیدر کے اچانک استعفے کی وجہ کے بارے میں مختلف قیاس آرائیاں کی جا رہی ہیں— فائل فوٹو: اے پی پی

نیب کے پراسیکیوٹر جنرل اصغر حیدر نے اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا، یہ پیش رفت ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب سپریم کورٹ کی جانب سے نیب ترامیم کیس کا فیصلہ آئندہ ہفتے سنائے جانے کا امکان ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق گزشتہ سماعت کے دوران چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے متوقع فیصلے کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ ہم جلد ہی کیس کا ’شارٹ اینڈ سوئیٹ‘ فیصلہ سنائیں گے۔

چیف جسٹس عمر عطا بندیال 16 ستمبر (ہفتہ)کو ریٹائر ہونے والے ہیں لہٰذا امکان ہے کہ سپریم کورٹ جمعہ تک فیصلہ سنادے گی۔

اصغر حیدر کے اچانک استعفے کی وجہ کے بارے میں قیاس آرائیاں کی جا رہی ہیں لیکن اصغر حیدر نے اسے ’بالکل نارمل‘ قرار دیا، وہ واحد پراسیکیوٹر جنرل تھے جنہیں دوسری مدت کے لیے توسیع دی گئی تھی۔

انہیں جنوری 2018 میں اس وقت کے وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے تعینات کیا تھا جبکہ پی ٹی آئی حکومت نے ایک آرڈیننس کے ذریعے ان کی مدت ملازمت میں توسیع کی تھی۔

لاہور ہائی کورٹ کے سابق جج اصغر حیدر کو 3 نومبر 2007 کو جنرل مشرف کے جاری کردہ عبوری آئینی آرڈر کے تحت حلف اٹھانے پر لاہور ہائی کورٹ میں عہدے سے ہٹا دیا گیا تھا۔

نیب قانون، پراسیکیوٹر جنرل کی مدت ملازمت میں توسیع سے روکتا ہے، قومی احتساب آرڈیننس کے سیکشن 8 (3) (اے) میں کہا گیا ہے کہ پراسیکیوٹر جنرل 3 سال کی (ناقابل توسیع) مدت کے لیے عہدہ سنبھالے گا۔

ذرائع نے بتایا کہ اصغر حیدر، چیف جسٹس کے قریبی دوست ہیں جو اگلے ہفتے ریٹائر ہو رہے ہیں، ’ڈان‘ سے بات کرتے ہوئے اصغر حیدر نے تصدیق کی کہ چیف جسٹس عمر عطا بندیال ان کے دوست ہیں لیکن میرے استعفے کی وجہ بالکل مختلف ہے۔

انہوں نے کہا کہ این اے او، جو نیب کو کنٹرول کرتا ہے، پراسیکیوٹر جنرل کے لیے اہلیت کے کچھ تقاضوں کا تعین کرتا ہے۔

این اے او کے سیکشن 8 میں کہا گیا ہے کہ صدر پاکستان، چیئرمین نیب کے مشورے سے ایسے کسی بھی شخص کو، جو سپریم کورٹ کے جج کے طور پر تعینات ہونے کا اہل ہو، بطور پراسیکیوٹر جنرل مقرر کر سکتے ہیں۔

اصغر حیدر نے کہا کہ سپریم کورٹ کے جج 65 سال کی عمر میں ریٹائر ہوتے ہیں، اس لیے میرا خیال ہے کہ یہی معیار پراسیکیوٹر جنرل پر بھی لاگو ہوتا ہے۔

رواں برس 21 جولائی کو اصغر حیدر 65 سال کے ہو گئے، انہوں نے کہا کہ وہ گزشتہ 3 ماہ سے استعفیٰ دینے پر غور کر رہے تھے۔

ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے متعلقہ حکام کو اپنے فیصلے سے آگاہ کر دیا تھا، تاہم نیب کی جانب سے عمر کی حد کی تشریح مختلف تھی، نیب کا مؤقف ہے کہ پراسیکیوٹر جنرل کی ریٹائرمنٹ کے لیے عمر کی کوئی حد نہیں ہے۔

ان سے سوال کیا گیا کہ کیا انہوں نے اس لیے استعفیٰ دیا کیونکہ وہ چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کے خلاف آئندہ ریفرنسز پر دستخط کرنے سے گریزاں ہیں، تاہم اصغر حیدر نے اس رائے کی تردید کردی۔

واضح رہے کہ نیب، عمران خان کے خلاف 2 مقدمات کی تحقیقات کر رہا ہے، ایک 190 ملین پاؤنڈ کی کرپشن کا کیس ہے اور دوسرا توشہ خانہ تحفے سے متعلق ہے۔

متعلقہ قانون کے مطابق چیئرمین نیب کسی بھی ایڈیشنل پراسیکیوٹر جنرل (اے پی جی) کو پراسیکیوٹر جنرل کا چارج تفویض کر سکتے ہیں۔

ذرائع نے دعویٰ کیا کہ ایڈیشنل پراسیکیوٹر جنرل اکبر تارڑ کو پی جی کا چارج دیا جا سکتا ہے، وہ تقریباً 15 سال سے نیب میں کام کر رہے ہیں۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ سپریم کورٹ کی جانب سے نیب ترامیم کو کالعدم قرار دینے کی صورت میں احتساب عدالتوں سے نیب کو واپس کیے گئے کیسز دوبارہ کھولے جائیں گے۔

کارٹون

کارٹون : 28 ستمبر 2024
کارٹون : 27 ستمبر 2024