الیکشن کمیشن انتخابات کی تاریخ کا اعلان کر کے بے یقینی کا خاتمہ کرے، شیری رحمٰن
پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کی سینیٹر شیری رحمٰن نے الیکشن کمیشن آف پاکستان(ای سی پی) پر زور دیا ہے کہ وہ انتخابات کی تاریخ کا اعلان کرے اور ملک میں جاری بے یقینی کا خاتمہ کرے۔
ڈان نیوز کے پروگرام ’دوسرا رخ‘ میں گفتگو کرتے ہوئے سینیٹر شیری رحمٰن نے کہا کہ فی الحال تمام سفارت کار اس بات کا جواب چاہتے ہیں کہ یہ صورت حال کب ختم ہوگی کیونکہ کوئی بھی پاکستان میں بے یقینی نہیں چاہتا۔
موسمیاتی تبدیلی کی سابق وزیر نے گزشتہ ماہ چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجا کی امریکی سفیر ڈونلڈ بلوم سے ملاقات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اداروں سے ملنا غیر معمولی بات ہے لیکن جب انتخابات کے لیے کسی تاریخ کا اعلان نہیں کیا جا رہا ہے تو آپ کیا توقع کریں گے لہٰذا محض انتخابات کی تاریخ کے اعلان سے کئی معاملات طے پا جائیں گے۔
انہوں نے کہا کہ انتخابات کے ٹائم فریم پر ہماری پارٹی کا مؤقف واضح ہے کہ 9 اگست کو قومی اسمبلی کے قبل از وقت تحلیل ہونے کے بعد 90 دن کی آئینی مدت کے اندر انتخابات کرائے جائیں۔
پیپلز پارٹی پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کی زیرقیادت سابق حکمران اتحاد کی واحد جماعت ہے جو 9 نومبر کی آئینی طور پر طے شدہ تاریخ سے آگے انتخابات نہ بڑھانے پر زور دیتی رہی ہے البتہ ان کی اعلیٰ قیادت کے حالیہ بیانات میں اس حوالے سے لچک کے آثار نظر آ رہے ہیں۔
رواں ہفتے کے اوائل میں پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے پارٹی کے دیگر رہنماؤں سے ملاقات کے دوران کہا تھا کہ عام انتخابات آئین کے مطابق ہونے چاہئیں تاکہ جمہوری حکومت عوام کے مسائل حل کر سکے۔
حالیہ ہفتوں میں یہ پہلا موقع تھا جب پیپلز پارٹی نے 90 دن کی آئینی مدت کا ذکر کیے بغیر آئین کی پاسداری کا مطالبہ کیا۔
اسی طرح پیپلز پارٹی کے شریک چیئرپرسن اور بلاول کے والد آصف علی زرداری نے آج اپنے بیان میں اس بات پر زور دیا کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان نئی ڈیجیٹل مردم شماری کے نتائج کی منظوری کے بعد نئی حلقہ بندیاں کرانے کی پابند ہے۔
یاد رہے کہ الیکشن کمیشن نے انتخابات میں ممکنہ التوا اور تاخیر کی بنیادی وجہ حلقہ بندیوں کو قرار دیا تھا۔
ای سی پی نے اپنے فیصلے کی بنیاد الیکشنز ایکٹ کی دفعہ 17(2) کو بنایا ہے جس کے مطابق کمیشن مردم شماری کی باضابطہ طور پر اشاعت کے بعد حلقہ بندیاں کرے گا۔
دریں اثنا، وکلا کی سرکردہ تنظیموں نے ہڑتال کا اعلان کرتے ہوئے آئین کے آرٹیکل 224 کے تحت 9 نومبر تک انتخابات کرانے کا مطالبہ کیا ہے۔
گزشتہ ماہ صدر عارف علوی نے چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجا کو عام انتخابات کے لیے مناسب تاریخ طے کرنے کے لیے ملاقات کی دعوت دی تھی۔
چیف الیکشن کمشنر کو لکھے گئے اپنے خط میں صدر نے آئین کے آرٹیکل 244 کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ وہ 90 دن کی مقررہ مدت میں انتخابات کرانے کے پابند ہیں کیونکہ قومی اسمبلی 9 اگست کو قبل از وقت تحلیل کر دی گئی تھی۔
لیکن الیکشنز ایکٹ 2017 میں حالیہ ترمیم نے الیکشن کمیشن آف پاکستان کو صدر سے مشورہ کیے بغیر یک طرفہ طور پر انتخابات کی تاریخوں کا اعلان کرنے کا اختیار دے دیا ہے۔
قانون میں اس تبدیلی کا حوالہ دیتے ہوئے چیف الیکشن کمشنر نے صدر کو جواب دیتے ہوئے کہا کہ ملاقات کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا جبکہ انتخابی قوانین میں تبدیلی کے بعد عام انتخابات کی تاریخ طے کرنے کا اختیار کمیشن کا ہے۔
اس کے بعد صدر مملکت نے اس معاملے پر وزارت قانون سے مشورہ طلب کیا تھا اور وزارت نے انہیں بتایا تھا کہ انتخابات کی تاریخ کا اعلان کرنے کا اختیار چیف الیکشن کمشنر کے پاس ہے۔
پیر کو صدر نے نگران وزیر قانون احمد عرفان اسلم کے ساتھ انتخابات سے متعلق امور پر تبادلہ خیال کیا تھا اور آئین کی روح کے مطابق فیصلے کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔