سرحدی فورسز کے درمیان جھڑپوں کے بعد طورخم بارڈر مسلسل تیسرے روز بھی بند
افغان سرحد پر سیکیورٹی چیک پوسٹ کے معاملے پر افغانستان اور پاکستان کے درمیان مذاکرات میں کوئی پیش رفت نہ ہونے کے باعث طورخم بارڈر کراسنگ جمعہ کو تیسرے روز بھی تجارتی سرگرمیوں اور پیدل آمد و رفت کے لیے بند رہی۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق مقامی ذرائع نے ڈان کو بتایا کہ کابل میں افغان طالبان کی حکومت کے ’سخت مؤقف‘ کی وجہ سے سرحد کو دوبارہ کھولنے کے حوالے سے کوئی سمجھوتہ نہیں ہو سکا۔
ان کا کہنا تھا کہ افغان سیکیورٹی حکام سمجھوتا نہیں کر رہے ، انہوں نے سرحد کی اپنی جانب چیک پوسٹ کے قیام پر اصرار کرتے ہوئے جاری مذاکرات کے دوران کوئی لچک نہیں دکھائی۔
ضلعی انتظامیہ کے ایک عہدیدار ارشاد علی مومند نے ڈان کو بتایا کہ مسلسل تیسرے دن بندش کی وجہ سے معاملات معطل ہو گئے ہیں۔
جب ان سے 2 افغان باشندوں ایک خاتون اور ایک بچے کی لاشیں لے جانے کی اجازت کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے پاکستان اور افغانستان کے درمیان سمجھوتا ہونے تک زندہ یا مردہ کسی کو بھی ’ترجیحی سلوک‘ دینے کے امکان کو مسترد کردیا۔
دوسری جانب جمعہ کو لنڈی کوتل میں خواتین اور بچوں کے ہمراہ پھنسے ہوئے افغان شہری سرحد دوبارہ کھلنے کے شدت سے منتظر رہے۔
زیادہ تر پھنسے ہوئے مردوں نے لنڈی کوتل بازار کی مرکزی مسجد میں عارضی پناہ لی جہاں مقامی تاجروں اور دکانداروں نے ان کے لیے کھانے پینے کا بندوبست کیا۔
دن کے اوقات میں سول سوسائٹی کے کارکنوں کے ایک گروپ نے لنڈی کوتل میں امن مارچ کا اہتمام کیا اور دونوں ممالک کے حکام سے مطالبہ کیا کہ وہ سرحد کو فوری طور پر دوبارہ کھولنے میں زیادہ سے زیادہ لچک کا مظاہرہ کریں تاکہ معصوم افغان شہریوں کے مسائل کو کم کیا جا سکے۔
واضح رہے کہ طورخم بارڈر پوائنٹ پاکستان اور افغانستان کے درمیان مسافروں اور سامان کی آمدورفت کا اہم مقام ہے۔
حالیہ برسوں میں سرحد کو کئی بار بند کیا گیا جس میں فروری میں ہونے والی بندش بھی شامل ہے جس کے نتیجے میں سامان سے لدے ہزاروں ٹرک سرحد کی دونوں اطراف پھنس گئے تھے۔
سرحد کو گزشتہ ماہ بھی پاکستان اور افغانستان کے سرحدی محافظوں کے درمیان جھڑپ کے بعد عارضی طور پر بند کر دیا گیا تھا۔
دونوں ممالک شدید اقتصادی مشکلات سے دوچار ہیں جہاں افغانستان امریکی انخلا کے بعد امداد میں کمی سے دوچار ہے اور پاکستان زرمبادلہ کے ذخائر کی کمی، بڑھتی ہوئی مہنگائی اور کرنسی کی گرتی ہوئی قدر جیسے مسائل سے نمٹنے کے لیے کوشاں ہے۔