سندھ میں ملیریا کی وبا کے ساتھ ڈینگی کیسز میں بھی نمایاں اضافہ ریکارڈ
سندھ میں ایک جانب ڈینگی نے سر اٹھانا شروع کر دیا ہے جس کے سبب یہ خوف پیدا ہوگیا ہے کہ یہ بیماری آئندہ ہفتوں میں آبادی کے بڑے حصے کو متاثر کر سکتی ہے، دوسری جانب ملیریا کے پھیلاؤ میں بھی اضافہ دیکھا گیا ہے۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق ذرائع نے بتایا کہ کراچی کے ایک بڑے سرکاری ہسپتال میں ایک دن میں ملیریا کے 100 سے زائد کیسز رپورٹ کیے گئے ہیں۔
صحت کے مختلف مراکز سے اکٹھی کی گئی معلومات سے پتا چلتا ہے کہ ملیریا گزشتہ چند ماہ میں تشویش کا ایک بڑا سبب بن گیا ہے، جس سے شہر کے سیکڑوں لوگ متاثر ہوئے ہیں اور سرکاری اعداد و شمار حقیقت کی عکاسی نہیں کررہے۔
محکمہ صحت کے اعداد و شمار کے مطابق کراچی میں گزشتہ چند ماہ کے دوران ملیریا کے صرف چند سو کیسز رپورٹ ہوئے ہیں، اندرون سندھ صورتحال اس کے برعکس ہے جہاں ہزاروں افراد ملیریا سے متاثر ہو رہے ہیں۔
سرکاری اعداد و شمار بمقابلہ حقیقت
سرکاری اعداد و شمار کے مطابق اگست میں صرف حیدرآباد ڈویژن میں 31 ہزار سے زائد کیسز رپورٹ ہوئے، کراچی میں مئی میں ملیریا کے 213، جون میں 255، جولائی میں 277 اور اگست میں 474 کیسز رپورٹ ہوئے تاہم اس کے سبب کسی ہلاکت کی اطلاع موصول نہیں ہوئی۔
اعداد و شمار سے یہ بھی پتا چلتا ہے کہ کراچی میں رواں برس اب تک ڈینگی کے کُل 828 کیسز رپورٹ ہوچکے ہیں جن میں سے کسی بھی متاثرہ شخص کی موت واقع نہیں ہوئی۔
تاہم سندھ کے متعدی امراض کے ہسپتال اور ریسرچ سینٹر سے جمع کیے گئے اعداد و شمار سے پتا چلتا ہے کہ رواں سال مئی میں ملیریا سے 2 اور جون میں ڈینگی سے ایک مریض جان سے ہاتھ دھو بیٹھا۔
رواں برس ہسپتال میں ملیریا سے متاثرہ کُل 320 مریضوں (مئی میں 37 اور جون میں 52) کا علاج کرایا گیا جہاں جولائی میں مریضوں کے داخلے کی تعداد 52 تھی جو گزشتہ ماہ بڑھ کر 133 ہو گئی۔
ہسپتال نے رواں برس ڈینگی کے 102 مریضوں کا بھی علاج کیا، رواں ماہ (ستمبر) ملیریا کے 14 اور ڈینگی کے 5 مریض علاج کے لیے داخل کیے گئے تھے۔
انڈس ہسپتال (کورنگی کیمپس) کے ترجمان کے مطابق ہسپتال میں جولائی میں ملیریا کے 20 اور اگست میں 36 مریض داخل ہوئے، گزشتہ 2 ماہ کے دوران ڈینگی کے 8 مریض علاج کے لیے داخل کیے گئے، انہوں نے کہا کہ اس وقت ہمارے پاس ملیریا کے 9 اور ڈینگی کے 3 مریض ہسپتال میں زیر علاج ہیں۔
ذرائع نے بتایا کہ اعداد و شمار میں فرق کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ ملیریا کے ساتھ ساتھ ڈینگی کے زیادہ تر مریض ہسپتالوں کے بجائے کلینکس میں رپورٹ کیے گئے اور صحتیاب بھی ہوگئے، محکمہ صحت کو ڈیٹا ہسپتالوں کی جانب سے فراہم کیا جاتا ہے، تاہم ڈینگی اور ملیریا سے متاثرہ مریضوں کی ایک محدود تعداد پیچیدگیوں کا شکار ہوئی اور ہسپتالوں کا رخ کیا۔
ملیریا کا پھیلاؤ
حیرت انگیز بات یہ ہے کہ حالیہ دنوں میں ڈاکٹر روتھ فاؤ سول ہسپتال کراچی میں ملیریا کے 100 سے زائد کیسز رپورٹ ہونے کا کوئی ذکر سرکاری اعداد و شمار میں نہیں ہے۔
ہسپتال کے ایمرجنسی ڈیپارٹمنٹ کے سربراہ ڈاکٹر کلب حسین کے مطابق رواں ہفتے ملیریا کے کیسز میں ڈرامائی اضافہ ہوا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہم روزانہ اپنے ہسپتال میں جن 500 سے زیادہ کیسز کا معائنہ کرتے ہیں ان میں سے 100 سے زیادہ مریض ملیریا سے متاثرہ ہوتے ہیں، مریضوں کی بڑی تعداد شہر کے مختلف حصوں سے آنے والے بالغ افراد پر مشتمل ہے۔
وبا کے پھیلنے کی وجہ کے بارے میں بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ شہر میں غیرصحت بخش حالات کے سوا مچھروں کی وسیع افزائش کی اور کیا وجہ ہو سکتی ہے جس نے ہر گھر کو متاثر کیا ہے۔
ان کے مطابق ملیریا کے زیادہ تر کیسز میں پلاسموڈیم وائیویکس شامل ہے، یہ ملیریا کی ان 6 اقسام میں سے ایک ہے جو عام طور پر انسانوں کو متاثر کرتی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ انفیکشن کی تصدیق لیبارٹری ٹیسٹ کے ذریعے ہوتی ہے جس کے بعد ہم بخار کو کم کرنے اور مریض کے پلیٹلیٹ کی سطح کو برقرار رکھنے کی کوشش کرتے ہیں، جس کے بعد اینٹی ملیریا ادویات دی جاتی ہیں، اکثر مریضوں کو ہسپتال میں تقریباً 4 گھنٹے تک علاج کروانے کے بعد ڈسچارج کر دیا جاتا ہے، پلازموڈیم وائیویکس شدید اور مہلک انفیکشن کا سبب بھی بن سکتا ہے۔
’شدت میں کوئی کمی نہیں‘
پرانے شہر کے علاقے میں ایک کلینک چلانے والے سینئر جنرل فزیشن ڈاکٹر الطاف حسین کھتری نے بتایا کہ وہ گزشتہ 3 ہفتوں سے ملیریا کے 4 سے 5 مشتبہ کیسز کا معائنہ کر رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ میرے کلینک میں حالیہ چند ہفتوں کے دوران ملیریا کی شدت میں کوئی کمی نہیں آئی ہے، آج میں نے 3 ایسے مریض دیکھے جن کا ملیریا ٹیسٹ مثبت آچکا ہے، زیادہ تر مریض لیاری، شیرشاہ، لی مارکیٹ، حب چوکی، گڈاپ اور ہاکس بے سے آرہے ہیں۔
ڈینگی کا خوف
سرکاری اعداد و شمار کے مطابق ملیر سب سے زیادہ متاثرہ ضلع ہے، جہاں مئی (120 کیسز) کے بعد سے ملیریا کے کیسز کی تعداد میں بتدریج اضافہ دیکھا جا رہا ہے۔
جون میں مجموعی طور پر 156، جولائی میں 173 اور اگست میں 254 کیسز رپورٹ ہوئے جو کہ مقامی حکومت کی جانب سے اس کی روک تھام کے لیے ناکافی اقدامات کو ظاہر کرتے ہیں۔