• KHI: Asr 4:12pm Maghrib 5:48pm
  • LHR: Asr 3:26pm Maghrib 5:03pm
  • ISB: Asr 3:25pm Maghrib 5:03pm
  • KHI: Asr 4:12pm Maghrib 5:48pm
  • LHR: Asr 3:26pm Maghrib 5:03pm
  • ISB: Asr 3:25pm Maghrib 5:03pm

عارف علوی نے اپنے دور صدارت میں متعدد مرتبہ مبینہ طور پر آئین کی خلاف ورزی کی، رضا ربانی

شائع September 8, 2023
سینیٹر رضا ربانی نے ریاست کے سربراہ کی حیثیت سے ڈاکٹر عارف علوی کی جانب سے اپنے دور میں کی جانے والی آئینی خلاف ورزیوں کے مبینہ سلسلے کی نشاندہی کی ہے— فائل فوٹوز: ڈان نیوز
سینیٹر رضا ربانی نے ریاست کے سربراہ کی حیثیت سے ڈاکٹر عارف علوی کی جانب سے اپنے دور میں کی جانے والی آئینی خلاف ورزیوں کے مبینہ سلسلے کی نشاندہی کی ہے— فائل فوٹوز: ڈان نیوز

صدر عارف علوی کے پانچ سالہ دور صدارت کی مدت ختم ہونے کے بعد ان کی اس عہدے سے بے داغ رخصتی ممکن نظر نہیں آرہی کیونکہ سینیٹر رضا ربانی نے ریاست کے سربراہ کی حیثیت سے ڈاکٹر عارف علوی کی جانب سے اپنے دور میں کی جانے والی آئینی خلاف ورزیوں کے مبینہ سلسلے کی نشاندہی کی ہے۔

پاکستان پیپلز پارٹی کے سینیٹر رضا ربانی نے اپنے بیان میں ان ایک درجن سے زائد واقعات کا تذکرہ کیا جب صدر عارف علوی نے مبینہ طور پر آئین کی خلاف ورزی کی۔

سینیٹر کے مطابق صدر کی طرف سے مشاورت کے بغیر آرڈیننس کا نفاذ آئین کے آرٹیکل 89 (1) کی خلاف ورزی ہے۔

آئین کے آرٹیکل 89 (1) کے تحت جب سینیٹ یا قومی اسمبلی کا اجلاس ہو رہا ہو، تو صدر اگر اس بارے میں مطمئن ہو کہ ایسے حالات موجود ہیں جن کی بنا پر فوری کارروائی کی ضرورت ہے تو وہ حالات کے تقاضے کے مطابق آرڈیننس وضع اور نافذ کر سکے گا۔

رضا ربانی نے الیکشن کمیشن آف پاکستان کے دو ارکان کے تقرر کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ یہ طریقہ کار اور آئین کی خلاف ورزی ہے، صدر نے یہ فیصلہ 2019 میں کیا تھا۔

انہوں نے صدر سے گیس انفرااسٹرکچر ڈیویلپمنٹ سیس آرڈیننس کو بھی عدلیہ کے خلاف قرار دیا جس کا نفاذ کسی بین الوزارتی مشاورت کے بغیر کیا گیا۔

اسی طرح، آئین کی ایک اور مبینہ خلاف ورزی میں پی ایم ڈی سی آرڈیننس کا دوبارہ نفاذ شامل ہے جسے سینیٹ نے آئین کے آرٹیکل 89 کے تحت مسترد کر دیا تھا۔

رہنما پیپلز پارٹی نے اعلیٰ عدلیہ کے دو ججز کے خلاف دائر ریفرنس پر بھی صدر کو تنقید کا نشانہ بنایا۔

انہوں نے مزید نشاندہی کی کہ صدر نے مبینہ طور پر سنگین غداری کے معاملے میں پراسیکیوشن کی جانب سے کیس کو واپس لینے پر مجرمانہ خاموشی برقرار رکھی۔

رضا ربانی نے اس بات پر بھی روشنی ڈالی کہ اسلام آباد ہائی کورٹ نے بالترتیب 4 اور 11 فروری 2020 کو ان صدارتی احکامات کو کالعدم قرار دے دیا تھا جس میں مسابقتی کمیشن آف پاکستان کے چیئرمین اور اراکین کو برطرف کر دیا گیا تھا، جبکہ اس پی ایم ڈی سی آرڈیننس کو بھی کالعدم قرار دیا تھا۔

انہوں نے مزید نشاندہی کی کہ دیگر مبینہ خلاف ورزیوں کے علاوہ سپریم کورٹ نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف صدر کی طرف سے بھیجے گئے ریفرنس کو خارج کر دیا اور وہ اس ماہ چیف جسٹس آف پاکستان کا عہدہ سنبھالنے والے ہیں۔

سینیٹر نے کہا کہ بلوچستان ہائی کورٹ نے صدر کی جانب سے جاری کردہ این ایف سی نوٹی فکیشن کو بھی کالعدم قرار دے دیا تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ صدر نے اس وقت کے وزیراعظم عمران خان کی جانب سے قومی اسمبلی تحلیل کرنے کی ایڈوائس کو بھی قبول کر لیا تھا۔

انہوں نے ایک واقعہ بھی سنایا جس میں صدر نے مبینہ طور پر وزیر اعظم اور ان کی کابینہ سے حلف لینے سے انکار کر دیا تھا۔

سابق چیئرمین سینیٹ نے مزید کہا کہ صدر نے مئی 2022 میں بھی گورنر پنجاب کو ہٹانے کے لیے وزیر اعظم کے مشورے پر عمل نہیں کیا تھا۔

انہوں نے اس وقت کے پنجاب کے وزیر اعلیٰ حمزہ شہباز کی حلف برداری کا حوالہ دیتے ہوئے صدر پر یہ الزام بھی لگایا کہ وہ لاہور ہائی کورٹ کی ہدایات کے مطابق وزیر اعلیٰ کا حلف اٹھانے کے لیے کسی شخص کو نامزد کرنے میں ناکام رہے۔

رضا ربانی نے کہا کہ صدر نے دو بلوں کی منظوری دی اور نہ ہی اسے پارلیمنٹ کو واپس بھیجا بلکہ اس کے بجائے صدارتی عملے پر الزام عائد کیا اور اس طرح انہوں نے آئین کے آرٹیکل 75 کے تحت اپنی آئینی ذمہ داری کو بھی مبینہ طور پر نظر انداز کیا۔

انہوں نے یہ بھی کہا کہ صدر نے عام انتخابات کی تاریخ کے اعلان کے لیے آئین کے آرٹیکل 48 کی غلط تشریح کی جو ان کی بدنیتی کو ظاہر کرتی ہے۔

یاد رہے کہ صدر مملکت عارف علوی کی جانب سے چیف الیکشن کمشنر کو عام انتخابات کے لیے مناسب تاریخ کا تعین کرنے کے لیے ملاقات کی دعوت دی گئی تھی جسے کمیشن نے مسترد کردیا تھا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق اپنی مدت پوری ہونے کے باوجود صدر عارف علوی کی صدارتی انتخاب کے عمل کے لیے ضروری الیکٹورل کالج کی عدم موجودگی کی وجہ سے غیر معینہ مدت تک عہدے پر رہنے کی توقع ہے۔

اس کے ساتھ ہی وہ ملکی تاریخ کے واحد ایسے سربراہ مملکت بن جائیں گے جن کی مدت میں توسیع ہوئی ہے, البتہ چوہدری فضل الہٰی نے بھی 16 ستمبر 1978 کو ضیاالحق کے صدر بننے سے قبل ایک اضافی مہینہ بطور صدر گزارا تھا۔

قانون کے تحت صدر کا انتخاب پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں یعنی سینیٹ اور قومی اسمبلی اور چاروں صوبائی اسمبلیوں کے ارکان کرتے ہیں۔

عام انتخابات کب ہوں گے اس پر سوالیہ نشان برقرار ہے اور الیکشن کمیشن جنوری کے آخر میں ان کے انعقاد کے بارے میں سوچ رہا ہے جس کی وجہ سے بےیقینی بھی برقرار ہے کہ عارف علوی کب تک اپنے عہدے پر فائز رہیں گے۔

کارٹون

کارٹون : 20 دسمبر 2024
کارٹون : 19 دسمبر 2024