سپریم کورٹ: سانحہ جڑانوالہ پر پہلی سماعت، جے آئی ٹی سے رپورٹ طلب
سپریم کورٹ نے فیصل آباد کے علاقے جڑانوالہ میں گزشتہ ماہ گرجا گھروں اور مسیحی برادری کے گھر نذر آتش کیے جانے کے خلاف دائر درخواست پر سماعت کی اور مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) سے رپورٹ طلب کرلیا۔
سپریم کورٹ میں جسٹس اعجازالاحسن کی سربراہی میں جسٹس منیب اختر اور جسٹس جمال خان مندوخیل پر مشتمل تین رکنی بینچ نے جڑانوالہ میں گرجا گھر نذر آتش کرنے کے واقعے سے متعلق وائس آف کرسچن انٹرنیشنل (وی سی آئی) کے ڈائریکٹر برائے انسانی حقوق سیموئیل میکسن کی جانب سے دائر درخواست پر پہلی سماعت کی۔
درخواست گزار نے کہا کہ جڑانوالہ سانحے کے بعد نفرت انگیز تقاریر بھی ہو رہی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ نے کوئٹہ دھماکا کیس میں کہا تھا کہ ہمیں عیسائی نہیں لکھا جائے گا، لیکن اب بھی ہمیں عیسائی لکھا جا رہا ہے۔
عدالت کو درخواست گزار نے بتایا کہ ایک مذہبی جماعت کے ساتھ معاہدے کی روشنی میں اب ہماری بستیوں میں گشت کیا جاتا ہے، گشت کر کے دیکھا جاتا ہے کہ کوئی مذہب کی توہین تو نہیں کر رہا ہے۔
انہوں نے عدالت سے استدعا کی کہ ڈپٹی کمشنر (ڈی سی) کے اس معاہدے کو بھی طلب کیا جائے، یہ بڑا عجیب معاہدہ ہے۔
سپریم کورٹ نے سانحہ جڑانوالہ پر جے آئی ٹی سے رپورٹ طلب کرتے ہوئے کیس کی مزید سماعت غیر معینہ مدت تک ملتوی کر دی۔
خیال رہے کہ وی سی آئی کے ڈائریکٹر برائے انسانی حقوق سیموئیل میکسن نے 18 اگست کو سپریم کورٹ رولز 1980 کے آرڈر 33 رول 6 کے تحت دائر ایک صفحے پر مشتمل درخواست میں عدالت عظمیٰ سے استدعا کی تھی کہ وہ انصاف کی فراہمی کے لیے کارروائی کرے۔
درخواست گزار کا کہنا تھا کہ وہ 16 اگست کے وحشیانہ واقعے کو ریکارڈ پر لانا چاہتے ہیں جس کے نتیجے میں متعدد گرجا گھروں، مقدس بائبل اور علاقے میں مسیحی آبادی کے رہائشیوں کے گھروں کو نذر آتش کیا گیا۔
انہوں نے مؤقف اپنایا تھا کہ سپریم کورٹ کی جانب سے پہلے ہی مذہبی اور سماجی رواداری کا کلچر فروغ دینے کے لیے اقلیتوں کے حقوق سے متعلق 2014 میں ایک کیس کا فیصلہ دیا جا چکا ہے۔
درخواست گزار نے استدعا کی تھی کہ عدالت، جڑانوالہ میں پیش آنے والے المناک واقعے کے ذمہ داران کے خلاف کارروائی کرے جس میں 20 گرجا گھروں اور درجنوں گھروں کو نقصان پہنچایا گیا۔
بابا گرونانک ویلفئیر سوسائٹی کے چیئرمین عدالت میں پیش
جسٹس اعجازالاحسن کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ کی سماعت کے دوران بابا گرونانک ویلفئیر سوسائٹی کے چیئرمین سردار بشنا سنگھ بھی عدالت میں پیش ہوئے اور اپنے مطالبات اور تحفظات سے عدالت کو آگاہ کیا۔
بینچ کے سربراہ جسٹس اعجازالاحسن نے انہیں مخاطب کرکے کہا کہ آپ کی درخواست میں ایک مسئلہ ٹارگٹ کلنگ کا اٹھایا گیا ہے، دوسرا مسئلہ گوردواروں کی تزئین و آرائش اور مرمت نہ ہونے کے بارے میں ہے۔
سردار بشنا سنگھ نے لاہور میں گوردواروں کی ٹوٹ پوٹ کی تفصیلات بھی سپریم کورٹ میں پیش کر دی اور کہا کہ ہمارے لوگ 1947 میں اپنا وطن چھوڑ کر بھارت چلے گئے لیکن ہم یہیں رہے، ہمارے مذہب کا آغاز بھی یہاں سے ہوا تھا۔
انہوں نے کہا کہ ہم یہ نہیں کہہ رہے ہیں کہ ہم سکھ ہیں اس لیے ہمارے ساتھ کچھ غلط کیا جارہا ہے، قبضہ گروپ مندر، مسجد، گوردوارہ کچھ نہیں دیکھتا۔
ان کا کہنا تھا کہ گزارش یہ ہے کہ محکمہ اوقاف، گوردواروں کی چار دیواری تعمیر کرے اور قبضہ گروپوں سے بچائے، جس پر جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ ہم تمام متعلقہ اداروں سے رپورٹ مانگ رہے ہیں اور آپ ہمیں مثاثرہ گوردواروں کی فہرست دیں۔
سردار بشنا سنگھ نے عدالت کو بتایا کہ ہمارے نوجوانوں میں خوف ہے کہ ان کی ٹارگٹ کلنگ ہو رہی ہے، ٹارگٹ کلنگ کا شکار مسلمان بھی ہیں مگر ہماری آبادی کم ہے۔
عدالت نے سکھ برادری کی ٹارگٹ کلنگ افسوس ناک قرار دی اور جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ ٹارگٹ کلنگز کے باعث سکھ برادری کو مختلف مقامات پر منتقل ہونا پڑ رہا ہے، سکھ برادری کے لوگ پاکستان چھوڑ کر جانے پر مجبور ہو گئے ہیں۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ ریاست کو سکھ برادری کی حفاظت یقینی بنانے کے لیے عملی اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔
سپریم کورٹ نے آئی جی خیبر پختونخوا سے حالیہ ٹارگٹ کلنگ کے واقعات پر تفصیلی رپورٹ طلب کی اور سیکریٹری داخلہ اور تمام متعلقہ آئی جیز کو رپورٹس پیش کرنے کا حکم دیا۔
جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ قائد اعظم نے اپنی پہلی تقریر میں کہا تھا کہ اقلیتوں کو تحفط ملے گا لہٰذا ریاست سکھ کمیونٹی کا تحفظ یقینی بنائے، ریاست کی ذمہ داری ہے کہ اقلیتوں سے متعلق آئین میں دی گئی ضمانتوں کا پاس رکھے۔
اس موقع پر سکھ رہنماؤں نے سپریم کورٹ میں کرپان سمیت داخلے کی بھی استدعا کی اور کہا کہ کرپان مذہبی طور پر ہمارے لباس کا حصہ ہے لیکن سپریم کورٹ میں کرپان اتار کر اندر آنے دیا جاتا ہے۔
سپریم کورٹ نے کراچی میں مندروں کی حالت سے متعلق بھی محکمہ اوقاف کو نوٹس جاری کیا اور رپورٹ طلب کرلی اور سیکریٹری مذہبی امور اور چیئرمین اوقاف کو نوٹسز جاری کر دیے۔
عدالت عظمیٰ نے اٹارنی جنرل آف پاکستان اور ایڈووکیٹ جنرل کو بھی نوٹس جاری کر دیے اور تمام ایڈووکیٹ جنرلز کو متعلقہ صوبوں سے متعلق رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت کی۔