آڈیو لیکس کمیشن کےخلاف درخواست سننے والے بینچ پر پی ڈی ایم حکومت کے اعتراضات مسترد
سپریم کورٹ آف پاکستان نے آڈیو لیکس کی صداقت کی تحقیقات کے لیے بنائے گئے تین ججز پر مشتمل کمیشن کے قیام کے خلاف درخواست سننے والے بینچ پر پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کی سابقہ حکومت کے اعتراضات مسترد کردیے۔
پی ڈی ایم حکومت کی جانب سے بینچ میں شامل تین ججز چیف جسٹس عمر عطا بندیال، جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس منیب اختر پر اعتراضات کیے گئے تھے اور مفادات کے ٹکراؤ پر ان کی بینچ سے علیحدگی کے لیے متفرق درخواست دائر کی تھی۔
سپریم کورٹ کے جج جسٹس اعجاز الاحسن نے 6 جون کو محفوظ کیا گیا مختصر فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ اٹھائے گئے اعتراضات عدلیہ کی آزادی پر حملہ ہیں۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 5 رکنی بینچ نے آڈیو لیکس کمیشن کی تشکیل کو چیلنج کرنے والی چار درخواستوں پر سماعت کی تھی جس میں جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس منیب اختر، جسٹس سید حسن اظہر رضوی اور جسٹس شاہد وحید شامل تھے۔
بعد ازاں چیف جسٹس عمر عطا بندیال کا تحریر کردہ تفصیلی فیصلہ جاری کیا گیا۔
ڈان ڈاٹ کام کے پاس دستیاب تفصیلی فیصلے میں کہا گیا کہ عدالت کے اس استفسار کے بارے میں کہ چیف جسٹس یا ان کے رشتہ دار کا مفاد کس طرح کیس میں شامل ہے، اٹارنی جنرل پاکستان کی جانب سے جواب دیا گیا اور نہ ہی اس کی وضاحت کی گئی۔
انہوں نے کھلے دل سے اعتراف کیا کہ چیف جسٹس یا ان کے رشتہ دار کا کوئی مالیاتی یا ملکیتی مفاد مذکورہ کیس کے ساتھ جڑا ہوا نہیں ہے، جب ’مفادات کے تکڑاؤ‘ کی اصطلاح کی وضاحت کرنے کے لیے کہا گیا تو اٹارنی جنرل نے محض یہ واضح کیا کہ کیس سے علیحدگی کی بنیاد کے طور پر یہ بات ’تعصب‘ سے الگ ہے جس کا الزام ہ وفاقی حکومت نے بھی نہیں اٹھایا۔
حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ اٹارنی جنرل کی عدالت کے سوالات کا جواب دینے میں عدم دلچسپی اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ ممکنہ طور پر وفاقی حکومت کا اعتراض میرٹ پر فیصلے میں تاخیر کرنے یا متعلقہ جج کو ہراساں کرنے کے لیے اٹھایا گیا تھا۔
حکم نامے میں کہا گیا کہ مفادات کا ٹکراؤ اور تعصب ہی وہ اصل بنیادیں ہیں جن کی بنیاد پر فریق کسی جج سے کیس کی سماعت سے الگ ہونے کی درخواست کر سکتا ہے۔
اس میں کہا گیا ہے کہ جب کہ مفادات کا ٹکراؤ کسی خاص کیس کے موضوع میں جج کی دلچسپی سے متعلق ہے، تعصب جج کے سامنے پیش ہونے والے فریقین کے بارے میں اس کے جذبات سے متعلق ہے، کیونکہ اٹارنی جنرل نے اپنے دلائل کو صرف مفادات کے ٹکراؤ کی بنیاد تک محدود کیا اور تعصب کا نکتہ نہیں اٹھایا تو یہ واضح ہے کہ وفاقی حکومت چیف جسٹس سے کسی تعصب کا خدشہ نہیں رکھتی۔
اس میں کہا گیا کہ اٹارنی جنرل کی مخصوص وجہ اور چیف جسٹس یا ان کے رشتہ دار کے مفادات کی نشاندہی کرنے میں ناکامی نے اعلیٰ جج کے خلاف گزشتہ حکومت کے الزامات کو فرضی قرار دیا۔
اس کے علاوہ چیف جسٹس کی رشتہ دار نہ تو ان درخواستوں میں فریق ہے اور نہ ہی انہوں نے عدالت کے سامنے تنازع میں ملوث ہونے کا دعویٰ کیا گیا۔
لہذا یہ ظاہر ہوتا ہے کہ چیف جسٹس کے خلاف مفادات کے ٹکراؤ کا خیالی دعوی مقدمے کا فیصلہ موخر کرنے کے لیے بنیاد کے طور پر لگایا گیا۔
فیصلے میں کہا گیا کہ اس طرح کا اعتراض آئینی اصولوں کی تشریح کے متقاضی قانون سے متعلق سوالات پرعدالتی فیصلوں کو روکنے یا موخر کرنے کی وفاقی حکومت کی حکمت عملی سے مطابقت رکھتا ہے۔
اس فیصلے میں عدالت عظمیٰ اور اس کے ججوں کے ساتھ گزشتہ حکومت کے ”دوستانہ“ سلوک کی بھی عکاسی ہوتی ہے۔
اس میں کہا گیا ہے کہ واقعات کا ایک سلسلہ تھا جس میں گزشتہ حکومت اور اس کے وزرا نے عدالتی اختیارات کو ختم کرنے کی کوشش کی اور اس کے کچھ ججوں کی حیثیت کو داغدار کرنے کی کوشش تھی تاکہ فیصلے کو روکا، تاخیر کا شکار یا اس میں رد و بدل کیا جاسکے۔
حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ پی ڈی ایم حکومت نے مختلف چالوں اور حیلے بہانوں کے ذریعے عدالتی فیصلے میں تاخیر کی اور اس کے فیصلوں کو ساکھ بھی خراب کیا۔
فیصلے میں عدالت نے اس نے پارلیمنٹ کے ذریعے نافذ کردہ سپریم کورٹ (ریویو اینڈ ججمنٹ) ریویو ایکٹ، 2023 کا حوالہ دیا جس کے بعد عدالت نے اسے مسترد کردیا، اس میں بعض ججوں سے سابق وزرا کی جانب سے دیے گئے بیانات میں بینچ سے علیحدہ ہونے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔
اس میں یہ بھی کہا گیا کہ اس وقت کی حکومت نے پنجاب اسمبلی انتخابات کرانے کے 4 اپریل کے حکم کے خلاف الیکشن کمیشن کی اپیل کی آڑلی۔
اس میں کہا گیا کہ عدالت نے وفاقی حکومت کے ایسے تمام اقدامات کا بردباری اور صبر و تحمل کے ساتھ سامنا کیا، تاہم یہ واضح ہے کہ کسی بھی حتمی فیصلے کو نافذ کرنے سے انکار پر آئین کے مطابق کارروائی کی جا سکتی ہے۔
حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ وفاقی حکومت کی جانب سے دائر درخواست کو میرٹ اور قانونی قوت سے عاری قرار دیا گیا ہے۔
اس میں کہا گیا کہ ہمارے ذہنوں میں بینچ سے علیحدگی کی درخواست میں وجوہات میں کمی نظر آئی، اس وجہ سے یہ عدلیہ کی آزادی پر حملہ ہے، اس لیے بینچ سے علیحدگی کی درخواست کو خارج کیا جاتا ہے۔
اس وقت کی وفاقی حکومت نے عدلیہ اور ججز سے متعلق مبینہ آڈیو لیکس کی تحقیقات کے لیے سپریم کورٹ کے سینئر ترین جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں تین رکنی انکوائری کمیشن قائم کیا تھا، اس میں بلوچستان ہائی کورٹ کے چیف جسٹس نعیم اختر افغان اور اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق شامل تھے۔
پاکستان مسلم لیگ (ن) کی چیف آرگنائزر مریم نواز نے فیصلے پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ عمر عطا بندیال صاحب اور ہم خیالوں نے ساس کی خاطر عدلیہ کی ساکھ قربان کر دی۔
خیال رہے کہ 26 مئی کو پانچ ججز کے بینچ نے مبینہ آڈیو لیکس کی حقیقت کی تحقیقات کے لیے حکومت کی جانب سے مقرر کردہ تین ججز کے کمیشن کی کارروائی کو روک دیا تھا۔
اس کے بعد 27 مئی کو آڈیو لیک کمیشن نے سپریم کورٹ کی سماعت کا نتیجہ آنے تک اپنی کارروائی ملتوی کر دی تھی۔
بعد ازاں 30 مئی کو سپریم کورٹ میں وفاقی حکومت نے آڈیو لیکس کمیشن کی تشکیل کے خلاف درخواست پر سماعت کرنے والے بینچ پر اعتراضات اٹھاتے ہوئے نیا بینچ تشکیل کرنے کی درخواست دائر کردی تھی۔
حکومت نے چیف جسٹس عمر عطا بندیال، جسٹس اعجازالاحسن اور جسٹس منیب اختر کے خلاف متفرق درخواست آڈیو لیک کمیشن کے خلاف درخواستوں کے کیس میں جمع کرائی تھی۔
درخواست میں مؤقف اختیار کیا گیا تھا کہ چیف جسٹس عمر عطا بندیال، جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس منیب اختر آڈیو لیک کا مقدمہ نہ سنیں، تینوں معزز ججز 5 رکنی لارجر بینچ میں بیٹھنے سے انکار کردیں، 26 مئی کو سماعت کے دوران چیف جسٹس پر اٹھے اعتراض کو پذیرائی نہیں دی گئی۔
درخواست میں کہا گیا تھا کہ انکوائری کمیشن کے سامنے ایک آڈیو چیف جسٹس کی خوش دامن سے متعلق ہے، عدالتی فیصلوں اور ججز کے کوڈ آف کنڈکٹ کے مطابق جج اپنے رشتہ کا مقدمہ نہیں سن سکتا۔
حکومت کی جانب سے دائر درخواست میں مزید کہا گیا کہ ماضی میں ارسلان افتخار کیس میں چیف جسٹس افتخار چوہدری نے اعتراض پر خود کو بینچ سے الگ کر لیا تھا، مبینہ آڈیو لیک جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس منیب اختر سے بھی متعلقہ ہیں۔
درخواست میں استدعا کی گئی تھی کہ وفاقی حکومت کے تشکیل کردہ آڈیو لیک کمیشن کے خلاف درخواستوں پر سماعت کے لیے نیا بینچ تشکیل دیا جائے۔
گزشتہ کچھ عرصے کے دوران کئی ایسی آڈیوز سامنے آئی ہیں جنہیں عدلیہ یا ججز سے منسوب کیا گیا تھا۔
فیصلہ سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن (ایس سی بی اے) کے صدر عابد زبیری، اس کے سیکریٹری مقتدر اختر شبیر، پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان اور ایڈووکیٹ ریاض حنیف راہی کی جانب سے دائر کردہ درخواستوں پر سنایا گیا، جس میں عدالت سے آڈیو کمیشن کی تشکیل کو غیر قانونی قرار دینے کی استدعا کی گئی تھی۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق درخواست میں عابد زبیری نے اپنے وکیل شعیب شاہین کے ذریعے اسلام آباد ہائی کورٹ کا 22 دسمبر 2021 کا ایک حکم نامہ پیش کیا، جس میں عدالت نے کہا تھا کہ کسی نیوز چینل کو ایسی کوئی آڈیو نشر یا نشر کرنے کا حق نہیں جسے چینل یا صحافی نے خود آڈیو یا ویڈیو کلپ کے موضوع کی پیشگی اجازت کے بغیر براہ راست ریکارڈ نہیں کیا ہو اور اس ’جاسوس معلومات‘ کو خبر نہیں سمجھا جانا چاہیے، خاص طور پر جب یہ رازداری کے حق کو متاثر کرتی ہو۔
اسی طرح ایک اور دستاویز سپریم کورٹ کا 5 اپریل 2022 کو دیا گیا فیصلہ تھا، جس میں اسے ریکارڈ پر لایا گیا تھا کہ عدالت عظمیٰ نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے مذکورہ بالا حکم کے خلاف اپیل پر غور کرنے سے انکار کر دیا تھا۔
اس کے علاوہ درخواست گزار نے 31 مئی 2023 کو دیا گیا اسلام آباد ہائی کورٹ کا ایک اور حکم بھی پیش کیا، جس میں عدالت نے آڈیو لیکس کے آڈٹ، انکوائری اور تحقیقات کے لیے قومی اسمبلی کے اسپیکر کی تشکیل دی گئی ایک خصوصی کمیٹی کے جاری کردہ سمن کو معطل کر دیا تھا جس میں مبینہ طور پر سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کے بیٹے نجم ثاقب ملوث تھے۔
حکم نامے میں جسٹس بابر ستار نے بیرسٹر اعتزاز احسن، مخدوم علی خان، میاں رضا ربانی اور محسن شاہنواز رانجھا کو عدالت کی معاونت کے لیے مقرر کیا تھا۔
ہائی کورٹ نے شہریوں کے درمیان ٹیلی فونک گفتگو کو ریکارڈ کرنے کے لیے کسی قانونی فریم ورک کے بارے میں بھی حیرت کا اظہار کیا تھا۔
درخواست گزار کی جانب سے سپریم کورٹ کے سامنے پیش کی جانے والی دستاویزات میں سے ایک لاہور ہائی کورٹ کا 2 جون 2023 کو سنایا گیا فیصلہ تھا، جس میں عدالت نے کہا تھا کہ ماخذ کی عدم موجودگی میں کسی بھی آڈیو یا ویڈیو کو ثبوت کے طور پر نہیں لیا جا سکتا۔
سپریم کورٹ نے 6 جون کو حکومتی درخواست پر اپنا فیصلہ محفوظ کر لیا تھا، سماعت کے دوران چیف جسٹس نے سوال اٹھایا تھا کہ کیا حکومت نے اپنے تمام وسائل کے ساتھ کبھی یہ معلوم کرنے کی کوشش کی آڈیو لیکس کے پیچھے کون ہے۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا تھا کہ یہ آڈیو لیکس کہاں سے اور کیسے سامنے آرہی ہیں اور اس سب کے پیچھے کون ہے؟
اس پر اٹارنی جنرل فار پاکستان منصور عثمان اعوان نے جواب دیتے ہوئے کہا تھا کہ اس طرح کے تمام معاملات کا فیصلہ کرنے کے لیے وفاقی حکومت چاہتی ہے کہ تین ججز پر مشتمل کمیشن ان تمام پہلوؤں کی تحقیقات کرے۔
انہوں نے کہا تھا کہ سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بینچ کی تشکیل نو کے لیے حکومتی درخواست کا تعلق کسی جج کے تعصب نہیں بلکہ مفادات کے ٹکراؤ کی وجہ سے ہے۔